قرض کے بھنور میں ڈوبتا بھارت

مفت کی اسکیموں سے وقتی راحت تو میسر لیکن مستقبل ہنوز تاریک !

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

پانچویں بڑی معیشت کے بجائے ہر فرد کی ترقی اور خوشحالی پر توجہ ضروری
پچھلے دنوں آئی ایم ایف نے بھارت کی معاشی کیفیت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق بھارت پر مسلسل قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اسی رفتار سے قرض لیتی رہی تو 2028تک ملک پر جی ڈی پی کا 100 فیصد سے زیادہ قرض ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات میں قرض کی ادائیگی مشکل ہوجائے گی مگر وزارت مالیات نے آئی ایم ایف کی رپورٹ پر ناراضگی ظاہر کی۔ گزشتہ دنوں وزارت خزانہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کا بھارت پر 100فیصد قرض کا اندازہ صحیح نہیں ہے۔ موجودہ قرض انڈین کرنسی میں ہے اس لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی وزارت نے بھارتی آفیشیل کے ساتھ اینول آرٹیکلIVکے مشورہ کے بعد مذکورہ رپورٹ کو رد کردیا ہے اور وضاحت کی کہ سرکاری قرض (ریاست اور مرکز دونوں کے ساتھ ) مالی سال 2020-21میں تقریباً 88 فیصد سے کم ہوکرتقریباً 81 فیصد ہوگیا ہے۔ یہ رقم 2002کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ نے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ستمبر 2023کی مدت میں ملک پر کل قرضہ 205لاکھ کروڑ روپے ہوگیا ہے ۔ اس میں مرکزی حکومت پر 161لاکھ کروڑ روپے ہے جبکہ ریاستوں پر 44لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ قرض ہے۔ 2014میں مرکز پر کل قرضہ 55لاکھ کروڑ روپے کا تھا۔ جو ستمبر 2023تک بڑھ کر 161لاکھ کروڑ روپے ہوگیا۔ اس طرح گزشتہ نو سالوں میں مرکزی حکومت پر 192 فیصد قرض میں اضافہ ہوا۔ اس میں ملکی اور غیر ملکی دونوں قرضے شامل ہیں۔ 2014-15میں ملک پر غیر ملکی قرضہ 31لاکھ کروڑ روپے کا تھا وہ بڑھ کر 50لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا ہوگیا۔ ستمبر 2023میں ملک پر قرضہ 205لاکھ کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ اس میں مرکز اور ریاستیں دونوں کے قرضے شامل ہیں۔
اگر ہمارے ملک کی آبادی 142کروڑ مان لی جائے تو ہر شہری پر 1.4لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض ہے۔ اب ہم جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 2004 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کے دور اول میں کل قرض 17لاکھ کروڑ روپے تھا اور 2014میں یہ تین گنا زیادہ بڑھ کر 55لاکھ کروڑ روپے ہوگیا جبکہ حکومت پر کل قرض 161 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ 2014کے بعد سے اب تک مرکزنے غیر ملکوں سے کل 19 لاکھ کروڑ کا قرض لیا ہے جبکہ 2005 سے 2013تک نو سالوں میں یو پی اے حکومت نے تقریباً 21لاکھ کروڑ روپے کا قرض لیاتھا۔ 2005میں غیر ملکی قرض محض 10لاکھ کروڑ روپے تھا جو 2013میں بڑھ کر 31 لاکھ کروڑ روپے ہوگیا۔ یعنی منموہن سنگھ کے دور حکومت میں مرکز نے 9 سالوں میں 21 لاکھ کروڑ روپے غیر ملکی قرض لیا تھا۔ ملک کے نامور ماہر اقتصادیات پروفیسر ارون کمار نے ایک انٹرویومیں واضح کیا کہ حکومت دو وجوہات سے قرض لیتی ہے۔ ایک یہ کہ حکومت کی آمدنی کتنی ہے اور اس کا خرچ کتنا ہے؟ اگر خرچ آمدنی سے زیادہ ہوتا ہے تو قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت جیسے ہی قرض لیتی ہے مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے۔ عام طور سے مالیاتی خسارہ اس وقت بڑھتا ہے جب حکومت قرض لیے گئے پیسے کو وہاں خرچ کرتی ہے جہاں سے اسے ریٹرن نہیں ملتا ہے۔ یاد رہے کہ معاشی طور سے طاقتور ممالک بھی قرض لیتے ہیں۔ قرض لینے والوں میں جاپان سب سے اوپر ہے کیونکہ جی ڈی پی کے مقابلے میں جاپان پر قرض 257.9 فیصد ہے۔ بڑے ممالک اپنی معیشت کو رفتار دینے کے لیے قرض لیتے ہیں ۔ امریکہ 133.3فیصد، چین 68.9فیصد جبکہ بھارت پر قرض کا بوجھ 90.6 فیصد ہے۔
ویسے بھارتی حکومت گلے تک قرض میں ڈوبی ہوئی ہے کیونکہ حکومت 80 کروڑ لوگوں میں سے تقریباً 9 کروڑ کسانوں کو سالانہ 6 ہزار روپے دے رہی ہے۔ پی ایم آواس یوجنا کے تحت دو کروڑ لوگوں کو گھر بنانے میں مالی مدد دے رہی ہے۔ وزیراعظم نے مفت راشن کی فراہمی کو 2028تک بڑھادیا ہے کیونکہ مودی کو 2024کے انتخاب میں اس کا فائدہ لینا ہے۔ اگرچہ ہمارے ٹیکس دہندگان کے پیسہ سے ہی سب ہوتا ہے لیکن حکومت کو اس کے لیے باہر سے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم مودی سینہ چوڑا کرکے بولتے ہیں کہ ہم ملک کی نصف سے کم آبادی کو بھر پیٹ کھانا فراہم کررہے ہیں۔ وزیراعظم کو حسب وعدہ سالانہ دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا تھا مگر وہ ملک کے خود دار کسانوں مزدوروں اور محنت کشوں کو مفت خوری کی عادت ڈال کر نکما بنارہے ہیں۔ پران جے گوہا ٹھاکر نامی صحافی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مودی نے 2014 کے بعد مفت کی ریوڑیوں (Free bees) کی شروعات کی ہے۔ بظاہر یہ اچھی لگتی ہیں لیکن وہ ہیں نہیں۔ انہیں تو خواتین اور نوجوانوں کو حوصلہ مند بنانا تھا تاکہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر روزگار کماسکیں اوراپنے کنبے کے لوگوں کا پیٹ بھر سکیں مگر وہ 80 کروڑ لوگوں کو بدستور غریب رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انہی کے ووٹ بینک بن کر رہیں۔ اس طرح مودی کی سیاست کا ڈنکا بجے اور وہ لوگوں کو مفت دینے کے لیے قرض پر پیسہ لینے کے لیے حکومت کو مجبور کریں۔ ٹھاکر کے مطابق سبسیڈی، دفاع اور دیگر اخراجات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے۔ ایسے منصوبوں کی وجہ سے بھاجپا کو خوب ووٹ ملتا ہے مگر ملکی معیشت بربادی کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اس سے غربت کیسے کم ہوگی؟ مرکز میں مودی کے ساڑھے نو سال اقتدار پر رہنے کے بعد بھی اگر 80 کروڑ لوگوں کے پیٹ بھرنے پڑتے ہیں تو غریبی کم کیا ہوگی۔
انہوں نے کہا تھا کہ’ اگر یہ چائے والا وزیراعظم بنا تو وہ پہلے غربت و مفلسی کا خاتمہ کرے گا کیونکہ اس نے غربت کو قریب سے دیکھا ہے‘ مگر جناب وزیر اعظم! آپ نے اپنے دور حکومت میں آخر کیا کیا ہے؟ آپ نے پندرہ لاکھ روپے تو بینک میں نہیں ڈالے لیکن پندرہ لاکھ کروڑ روپے کے قرض کے جال میں لوگوں کو ضرور پھنسا دیا ہے۔ پانچ ٹریلین اکانومی کے دعوے سے ملک میں نہ تو بھکمری کا خاتمہ ہوگا نہ ہی ملک میں خوشحالی آئے گی۔ 2023 کے عالمی بھکمری اشاریے میں بھارت کا مقام 125ملکوں میں 111واں ہے ۔ بچوں کی کمزوری کی شرح 18.7فیصد اور تغذیہ کی کمی دنیا بھرمیں سب سے زیادہ ہے۔
پانچ ٹریلین والی بڑی اور ترقی یافتہ معیشت کے بجائے ہمارا نعرہ خوشحال اور ترقی یافتہ بھارت کاہونا چاہیے ۔ اس سفر میں خوشحالی کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ بغیر خوشحالی کے ترقی بے معنی ہے۔ ملک تو معاشی بہتری کی طرف گامزن ہے مگر شہری خوش نہیں ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ جو ملک امیر ہے وہ خوشحال بھی ہو۔ چند امیر ممالک اپنی جی ڈی پی میں بہتری لانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور کچھ فی کس آمدنی پر بھی۔ مگر وہ سماجی اور نفسیاتی بہتری کے اشاریوں میں بری طرح پچھڑ جاتے ہیں اور ملک کی ترقی کے منصوبوں میں دماغی صحت (Mental Health) کو نظر انداز کرتے ہیں۔ 2023کے ورلڈ ہیپینیس رپورٹ کے مطابق بہترے ترقی یافتہ ممالک کے خوشحالی کے اشاریے خراب ہیں۔ چند ممالک ایسے بھی ہیں جو دونوں پر یکساں توجہ مبذول کرتے ہیں۔ اس میں ہمارے ملک کا 137ممالک میں 126واں مقام ہے جسے بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ہمارا ملک پانچویں بڑی معیشت ہے مگر ملک میں امیر لوگ بڑی تیزی سے امیر ہورہے ہیں اور غریب اور بھی غریب ہورہے ہیں۔ 23 کروڑ لوگ ملک میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب سوال ہے کہ کیا ہمارا ملک آئندہ خوشحالی اشاریے (Happiness Index) کو بہتر کرنے پر توجہ دے گا؟ ورنہ ترقی یافتہ (Viksit) بھارت کا ایجنڈہ شاید خواب ہی نہ رہ جائے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں خوشحالی کے پیمانے کو ترجیحات میں رکھا جارہا ہے۔ 2012 میں اس اشاریہ کے وجود میں آنے کے بعد بھارت نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جو کہ لمحۂ فکریہ ہے۔
***

 

***

 اگرچہ ہمارا ملک پانچویں بڑی معیشت ہے مگر ملک میں امیر لوگ بڑی تیزی سے امیر ہورہے ہیں اور غریب اور بھی غریب ہورہے ہیں۔ 23 کروڑ لوگ ملک میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب سوال ہے کہ کیا ہمارا ملک آئندہ خوشحالی اشاریے (Happiness Index) کو بہتر کرنے پر توجہ دے گا؟ ورنہ ترقی یافتہ (Viksit) بھارت کا ایجنڈہ شاید خواب ہی نہ رہ جائے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں خوشحالی کے پیمانے کو ترجیحات میں رکھا جارہا ہے۔ 2012 میں اس اشاریہ کے وجود میں آنے کے بعد بھارت نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جو کہ لمحۂ فکریہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024