قانونی شعور کی جیت

آدھار کارڈ پر اصرار کرنے پر یس بینک کو ہرجانہ دینے کا حکم

0

ممبئی: (دعوت نیوز ڈیسک)

بمبئی کے ایک شہری نے جب اپنی جائیداد کرایہ پر دینے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھلوانا چاہا تو یس بینک نے آدھار کارڈ کو لازمی قرار دیتے ہوئے اکاؤنٹ کھولنے سے انکار کر دیا۔ شہری نے سپریم کورٹ کے احکام کا حوالہ دیا کہ آدھار کارڈ اب لازمی نہیں رہا، مگر بینک نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔
آخرکار معاملہ عدالت پہنچا اور جسٹس ایم ایس سوناک اور جسٹس جتیندر جین پر مشتمل بنچ نے شہری کے حق میں فیصلہ صادر کیا۔ عدالت نے یس بینک کو پچاس ہزار روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
یہ فیصلہ جسٹس ایم ایس سوناک اور جسٹس جتیندر جین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سنایا۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ 26 ستمبر 2018 کے بعد بینک اکاؤنٹ کے لیے آدھار کارڈ کو لازمی قرار دینا قانون کے منافی ہے، کیونکہ جسٹس پُٹّسوامی کیس میں سپریم کورٹ نے اس تقاضے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
عرضی گزار بمبئی میں ایک جائیداد کے مالک ہیں، جسے وہ کرایہ پر دینا چاہتے تھے۔ مگر بینک اکاؤنٹ نہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ جب وہ یس بینک پہنچے تو بینک نے آدھار کارڈ پیش کرنا لازمی قرار دیا، حالانکہ وہ سپریم کورٹ کے عبوری احکام سے بینک کو آگاہ بھی کر چکے تھے، جن میں آدھار پر لازمی اصرار کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا تھا۔ بینک کی ضد کے خلاف عرضی گزار نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بالآخر عدالتی حکم پر جنوری 2019 میں ان کے نام اکاؤنٹ کھولا گیا، جب کہ انہیں یہ سہولت ستمبر 2018 کے بعد بلا کسی رکاوٹ فراہم کی جا سکتی تھی۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ دس لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ مبالغہ آمیز ہے، لیکن یس بینک کا طرز عمل کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔ تین تا چار ماہ کی غیر ضروری تاخیر کے باعث عرضی گزار کو معاشی نقصان اٹھانا پڑا، جس کی تلافی ناگزیر تھی۔ لہٰذا عدالت نے یس بینک کو ہدایت دی کہ وہ عرضی گزار کو پچاس ہزار روپے بطور ہرجانہ آٹھ ہفتوں کے اندر ادا کرے، بشرطیکہ وہ بینک کو عدالتی حکم نامے کی نقل فراہم کرے۔
یہ محض ایک عدالتی کارروائی نہیں، بلکہ ایک فکر انگیز لمحہ ہے جو ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ اکثر ہم نظام کی طرف سے مسلط کی جانے والی غیر قانونی یا غیر ضروری شرائط کو خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں، جیسے یہ کوئی معمول کی بات ہو۔ یہی خاموشی بدعنوانی، من مانی اور ادارہ جاتی بے حسی کو پروان چڑھاتی ہے۔
اس واقعے سے ایک اہم سبق یہ ملتا ہے کہ اگر کوئی فرد قانونی شعور، صبر اور حوصلے کے ساتھ نظام کی غلطیوں کے خلاف ڈٹ جائے تو نہ صرف اسے انصاف ملتا ہے بلکہ پورے نظام میں اصلاح کی راہیں بھی کھلتی ہیں۔ یس بینک کے خلاف یہ عدالتی فیصلہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ جب صارفین اور عام شہری اصولوں پر قائم رہیں تو بڑی سے بڑی مشینری کو بھی جواب دہ بنانا ممکن ہے۔
گویا نظام کو چست، شفاف اور منصفانہ رکھنا صرف عدالتوں یا حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ ہر باشعور شہری کی ذمہ داری ہے۔ ظلم، بے جا مطالبات اور خلافِ قانون رویوں پر خاموش رہنا گویا ان کا غیر اعلانیہ جواز فراہم کرنا ہے، جبکہ بر وقت آواز بلند کرنا ہی نظام کی تطہیر اور تبدیلی کی پہلی سیڑھی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025