قانون کے رکھوالوں کا مشکوک کردار انصاف رسانی میں رکاوٹ

پولس کاادارہ جاتی ڈھانچہ نوآبادیاتی نظام کی دین

نوراللہ جاوید، کولکاتا

آزادی کے 75سال بعد بھی عوام کی جمہوری امنگوں کی عکاسی کرنےمیں ناکام
پولس کےسیاسی استعمال پرروک،اصلاحات اور نظام میں شفافیت لائے بغیر امن و انصاف کا قیام مشکل
’’مجھے اب نہ عدالت پر بھروسہ ہے نہ یوگی کی پولیس پر۔ ہماری بچی کا ریپ اور اس کا قتل کرنے والے ٹھاکر برادری سے تھے اس لیے مجرموں کو عدالت سے رہائی مل گئی ہے۔ یہ برہمن وادی لوگ ہیں، ملک کو ذات پات اور مذہب کے نام پر بانٹ کر اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ پولیس پہلے ہی دن سے مجرموں کو بچانے میں لگی ہوئی تھی اور اس میں اس کو کامیابی بھی مل گئی ہے‘‘۔ یہ الفاظ ہاتھرس عصمت ریزی کے بعد قتل کیے جانے والی لڑکی کے گھر والوں کے ہیں جو انہوں نے ہاتھرس معاملے میں تین ملزمین کی رہائی کے ردعمل میں کہے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے انصاف کے لیے در در بھٹکنے والے خاندان کے صبر کا پیمانہ کچھ اس طرح لبریز ہوا کہ ملک میں انصاف کے نظام کی سب سے بڑی خامی کا پردہ چاک ہوگیا۔محض چار دن بعد ملک بھر میں آٹھ مارچ کو یوم خواتین کے نام پر عورتوں کے حقوق اور آزادی اور مساوات کے نعرے لگائے جائیں گے۔ عورتوں کو یکساں حقوق فراہم کرنے سے متعلق بڑے بڑے دعوے اور لمبی لمبی رپورٹیں پیش کی جائیں گی۔ مگر جب خواتین کو انصاف دینے کی بات آتی ہے تو ملک میں انصاف کا نظام پوری طرح سے ڈھیر نظر آتا ہے۔ یہ ناانصافی و زیادتی اور پولیس کا دہرا کردار صرف ہاتھرس عصمت دری و قتل کیس تک محدود نہیں ہے بلکہ اناو کے سابق بی جے پی ممبر اسمبلی کے ذریعہ ایک لڑکی کی عصمت دری اور اس کے بعد اس پورے خاندان کی تباہی و بربادی اور جموں و کشمیر میں ننھی سی معصوم بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں بھی پولیس کا کردار صرف لاپروائی والا نہیں تھا بلکہ وہ مجرموں کے ساتھ کھڑی رہی اور حتی الامکان انہیں بچانے کی کوشش کرتی رہی۔ عصمت دری اور قتل کی شکار خواتین کے مجرموں کو بچانے کے لیے پورا سسٹم کام کرتا ہے اور انصاف کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں۔یہ صرف عصمت دری کی شکار خواتین تک محدود نہیں ہے بلکہ پولیس کا کرادر پوری طرح سیاسی ہوتا ہے اور حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ دراصل ملک میں پولیس کے معاملات کو کنٹرول کرنے والا قانونی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ انگریزوں کی دین ہے۔یہ ڈھانچہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیےقائم کیا گیا تھا۔المیہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام پر پولیس کے اس سسٹم اور قانونی ڈھانچہ میں آزادی کے پچھتر سال بعد بھی بھارت کے عوام کے جمہوری امنگوں کو پورا کرنے کے لیے اصلاحات نہیں کی گئی۔ نوآبادیاتی دور میں تحریک آزادی کو دبانے کے لیے اس سسٹم کا استعمال کیا جاتا تھا اور آج یہ پورا نظام حکمراں جماعت اور اشرافیہ کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔
چناںچہ ہاتھرس میں دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے واقعے کے نتیجے میں ہونے والی بدنامی سے بچنے کے لیے ایک مسلمان صحافی صدیق کپن کو جھوٹے الزامات میں پھنسا کر فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کا ایک نیا چیپٹر کھول دیا گیا تاکہ عوام کی توجہ دوسری جانب مبذول ہوجائے۔صدیق کپن دو سال سے زیادہ بغیر کسی جرم کے یو پی پولیس کی تحویل میں رہے۔ان کے خلاف مرکزی ایجنسی ای ڈی کو لگادیا گیا۔مرکزی ای ڈی نے منی لانڈرنگ کے معاملے میں چھوٹی سی بھی کوتاہی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس کے باوجود جیل سے رہائی کے لیےصدیق کپن اور ان کے خاندان کو سب کچھ لٹادینا پڑا۔دلی فسادات کو تین سال گزر جانے کے باوجود اصل فسادی آزاد ہیں اور بے قصور افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
پولیس کے سیاسی استعمال اور حکمراں جماعت کے مفادات کے تحفظ اور آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے معاملے میں کوئی بھی سیاسی پارٹی غلطیوں سے مبرا نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں کا ریکارڈ خراب رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتے ہی پولیس کے ذریعہ اپنے مخالفین کو خاموش کراتی ہیں ہے۔اس وقت جس طریقے سے یو پی، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، گجرات اور بی جے پی کی زیر اقتدار دیگر ریاستوں میں پولیس کا بدترین استعمال کیا جارہا ہے وہ یقینا آزاد بھارت کی تاریخ کا بھی بدترین دور ہے۔پولیس ڈپارٹمنٹ بطور ادارہ اپنی خود مختاری مکمل طور پر کھو چکا ہے ۔کون مجرم ہے اور کس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اس کا فیصلہ عدالت نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں اور پولیس ان کے فیصلوں کو روبہ عمل لارہی ہے۔حکمراں جماعت کے لیڈروں کے بیانات پر جرم ثابت ہونے سے قبل ہی مخالفین کے مکانات پر بلڈوزر چلا دیے جاتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں بھی صورت حال کوئی اچھی نہیں ہے۔مغربی بنگال میں ’’سیکولرزم کی چمپئن‘‘ ممتا بنرجی برسراقتدار ہیں مگر یہاں بھی ممتا بنرجی کی تنقید کرنے پر کسی بھی وقت پولیس آپ کے گھر پہنچ سکتی ہے۔اس زیادتی کے شکار عام شہری اور سماجی کارکن ہی نہیں ہے بلکہ آئی ایس ایف کے ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی کو بھی بیالیس دنوں تک بغیر کسی جرم کے جیل میں رہنا پڑا۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے حکمراں جماعت کی غنڈہ گردی کے خلاف احتجاج کرنے کی جرأت کی۔پولیس نے پہلے لاٹھی چارج کیا اور اس کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے معاملے میں نوشاد صدیقی سمیت اسی افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ایک معاملے میں اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاری پر عدالت بھی حیران ہوئی۔چالیس دنوں تک قید میں رکھنے کے بعد پولیس یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ نوشاد صدیقی نے نفرت انگیز بیان اور پولیس پر حملے کرنے کے لیے عوام کو اکسایا تھا۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ مہاراشٹر کے کورے گاوں کے معاملے میں کس طرح کی کارروائی کی گئی۔ وہیں گئو کشی کے شبہ میں ہریانہ میں ناصر اور جنید کو مار مار کر ہلاک کرنے والوں کے ساتھ پولیس کا سلوک بھی عیاں ہے۔ دراصل پولیس کے اس پورے نظام میں تعصب اور اقلیتوں کے تئیں نفرت اوپر سے نیچے تک رچ بس گئی ہے۔نفرت اور تعصب کا شکار پولیس کا پوار نظام تعفن زدہ ہو چکاہے۔اس سے انصاف اور امن و امان کی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی ہے۔چنانچہ مہاراشٹرکے ضلع لاتور میں تلنگانہ کے بی جے پی ممبر اسمبلی ٹی راجا سنگھ ہزاروں کے مجمع میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے کی بات کررہے ہیں۔ انہوں اس طرح کا بیان ایک مہینے میں دوسری مرتبہ دیا ہے۔مگر نہ پولیس نے کارروائی کی اور نہ ہی عدالت نے از خود نوٹس لیا۔اسی طرح دلی اور ملک کے دیگر حصوں میں دھرم سنسد کے انعقاد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی بات کرنے والے آزاد ہیں ۔سپریم کورٹ کی تنبیہ بھی پولیس کی ضمیر کو جگا نہیں سکی ہے مگر اس سے کم شدت والے بیانات دینے والے مسلم نوجوان برسوں سے جیل میں ہیں۔اگر ٹی راجا سنگھ اور شرجیل امام کی تقریرکا موازنہ کیا جائے تو تو شرجیل امام بہر صورت بےقصور نظر آئیں گے مگر شرجیل امام کے خلاف ایک ہی معاملے میں متعدد ریاستوں میں مقدمات درج ہیں، مختلف ایجنسیاں جانچ کررہی ہیں۔ایک معاملے میں ضمانت مل جاتی ہے تو دوسرا کیس کھل جاتا ہے۔ سسٹم اور نظام اس قدر فرسودہ اور بے بس ہوچکا ہے کہ سپریم کورٹ کی بار بار ہدایات کے باوجود میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ ہر ایک معاملے میں مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔میڈیا مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے مگر نہ پولیس اور نہ ہی عدالت بے لگام میڈیا پر شکنجہ کسنےکو تیار ہے۔
نفرت انگیز بیانات اور معاملات میں پولیس کے اس دوہرے کردار نے واضح کردیا ہے کہ بھارت کی پولیس مکمل طور پر سیاسی ادارے میں تبدیل ہوچکی ہے۔مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے معاملے میں مکمل طور پر تعصب کا شکار ہے۔ دسمبر 2018 میں مہاراشٹر کی ایک پولیس آفیسر بھاگیہ شری نوتا کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ شیخی بگھارتے ہوئے کہتی ہے کہ اس نے بڑی تعداد میں دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے ہیں اور ان کے خلاف تشدد کیا ہے۔بھاگیہ شری کایہ ویڈیو پولیس فورس میں سماجی تعصبات کی حقیقی تصویر کی نمائندگی کرتا ہے۔ہفت روزہ دعوت کے انہی صفحات میں ہم نے مسلمانوں کے تئیں پولیس کی سوچ اور نظریہ سے متعلق ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہر چار میں سے ایک پولیس والا مسلمانوں کے تئیں تعصب کا شکار ہے ۔دوسری جانب مختلف تجزیاتی سروےکے نتائج بتاتے ہیں کہ پولیس کے نظام پر پسماندہ، دلت اور اقلیتی طبقات کا اعتماد بھی کم ہورہا ہے ۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر پولیس کا سیاسی استعمال کب بند ہوگا؟ 2006 میں سپریم کورٹ کے ذریعہ پولیس نظام میں اصلاحات اور آئی جی کی تقرری میں شفافیت اور اس عہدہ کی مدت محدود کرنے کی ہدایت دیے جانے کے باوجود اٹھارہ سال گزر جانے کے بعد بھی پولیس نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش تک نہیں کی گئی ہے۔یہ صورت حال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے کہ پولیس کا تعفن زدہ ڈھانچہ کب تک غریب و مظلوم افراد کو انصاف دلانے کے بجائے ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہے گا۔اس سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے بھی یا نہیں؟ پولیس کا ڈھانچہ سیاست دانوں کے زیر اثر آسانی سے کیوں آجاتا ہے؟ پولیس کے کردار کو غیر جانبدار بنانے کے لیے ایسے کون سے اقدامات ہیں جنہیں فوری اٹھانے کی ضرورت ہے؟
پولیس کے نظام میں خامیاں
مغربی بنگال کے سابق آئی پی ایس آفیسر ڈاکٹر نذرالاسلام ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس کے سسٹم میں ایسی خامیاں ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے سیاسی دباو کے بغیر پولیس افسران کا کام کرنا ہی مشکل ہے۔جب تک اس نظام میں شفافیت نہیں آتی ہم بہتری کی امید نہیں کرسکتے ہیں۔ پولیس کو جواب دہ بنانے کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔2006میں سپریم کورٹ نے پولیس نظام میں اصلاحات کے لیے کئی تجاویز دیں مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ لا اینڈ آرڈر ریاست کا موضوع ہے، پولیس نظام میں تبدیلی اور اصلاحات کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے۔ زیادہ تر ریاستوں نے 1861 کے ایکٹ کی پیروی کرتے ہوئے اور پولیس اصلاحات کے مطالبات کے تئیں لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔پولیس ایکٹ 1861 میں کئی خامیاں ہیں۔ ایکٹ کے سیکشن تین میں پولیس سپرنٹنڈنٹ ریاستی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ اسی طرح ایکٹ کے سیکشن تیئیس میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ مجاز اتھارٹی کی طرف سے وہ قانونی طور پر جاری کیے گئے تمام احکامات اور وارنٹوں کی فوری تعمیل کرے۔ اس طرح اس افسر کو ریاست میں سیاسی طاقت رکھنے والوں یا اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے ماتحت کیا گیا۔ یہ سیاسی وابستگی پولیس افسران کو اپنے فرائض آزادانہ طور پر انجام دینے سے روکتی ہے۔ نذرالاسلام کہتے ہیں کہ پولیس افسروں کی تقرری، تبادلہ اور پرموشن سب ریاستی حکومت کے تحت ہے۔وزیر اعلیٰ کی ناراضگی کی صورت میں افسران کا تبادلہ یا پھر تنزلی کچھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی پولیس اہلکار وزیر اعلیٰ کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔اسی طرح پولیس افسروں کی شکایت کے لیے ’’ریاستی پولیس شکایات اتھارٹیز (SPCAs)‘‘ ادارہ تشکیل دیا گیا ہے مگر یہ ضلعی سطح پر نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کے خلاف عام لوگوں کے لیے شکایت کرنا مشکل ہے۔ اسی طرح زیادہ تر ریاستوں میں شکایت اتھارٹی کے پاس محکمانہ انکوائری کرانے کے اختیارات نہیں ہے۔ پولیس کا بغیر کسی خوف و ہراس کے کام کرنے کا تصور کرنا اصلاحات کے طویل سفر اور اس کے لیے صحیح سمت میں مثبت اقدامات کے بغیر مشکل ہے۔
2006 میں سپریم کورٹ نے پرکاش سنگھ بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ پولیس کے خلاف شکایات سننے کے لیے ضلع سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ ہر کمیٹی کے پاس مجرم پولیس آفیسر کے خلاف محکمہ جاتی یا فوجداری کارروائی کرنے کے اختیارات ہونے چاہئیں۔کمیٹی کے ممبران کی تقرری کا طریقہ کار بھی آزادانہ ہونا چاہیے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی جسٹس تھامس کمیٹی نے 2010 میں مایوسی کا اظہار کیا۔ 2013 میں دلی میں نربھیا کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کے بعد جسٹس ورما کمیٹی کی تشکیل کی گئی۔جسٹس ورما نے اپنی سفارشات میں کہا کہ ریاستی حکومت پولیس نظام میں شفافیت لانے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات پر فوری عمل کرے۔ یکم اگست 2016 کو نیتی آیوگ نے اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ایک دہائی بعد بھی عمل درآمد نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے قوانین میں ترمیم کے لیے صرف سترہ ریاستوں نے قانون سازی کی تھی مگر یہ قانون سازی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مکمل پاسداری نہیں کرتی ہے۔
جہاں تک پولیس اہلکاروں میں ذات پات کی تفریق، فرقہ واریت اور علاقائت پرستی کا سوال ہے تو یہ بات ہمیں بخوبی سمجھنا چاہیے کہ پولیس کا حصہ بننے والے اسی معاشرے کے افراد ہوتے ہیں جہاں یہ تمام برائیاں پہلے سے ہی موجود ہیں۔اس لیے پولیس ڈپارٹمنٹ میں وہ اپنے ساتھ تمام تعصبات اور نفرتیں لے کر آتے ہیں جنہیں وہ اپنے معاشرے میں دیکھ اور سن کر نشوو نما پاتے ہیں۔ یو پی سے تعلق رکھنے والے سابق آئی پی ایس آفیسر ایس آر داراپوری نے ’’بھارتی پولیس میں ذات پات اور فرقہ واریت‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون میں اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ ’’دراصل پولیس فورس اپنی ساخت کی وجہ سے ’اعلیٰ ذات‘ کے مردوں کے غلبہ والی فورس ہے اور اس وجہ سے اس میں امتیازی سلوک بلا روک ٹوک جاری ہے۔ صرف ریزرویشن پالیسی کی وجہ سے پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد، خاص طور پر ایس سی اور ایس ٹی، کو پولیس فورسیس میں جگہ مل پاتی ہے۔ تاہم اقلیتوں کی نمائندگی اب بھی بہت ہی کم ہے نیز، پولیس والوں میں ذات پات، فرقہ وارانہ اور صنفی تعصب اب بھی کافی مضبوط ہے۔ دارا پوری نے لکھا ہے کہ نیم مرکزی فورسیس میں بھی تعصب اور نفرت ہے۔ انہوں نے بنارس فسادات کا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بی ایس ایف کے جوانوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا اور فسادیوں کی مدد کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر سینئر افسران ٹریننگ دیتے وقت پولیس اہلکاروں کے اندر سے تعصب اور فرقہ واریت کے ناپاک جراثیم نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر فسادات اور ہنگامہ آرائی کے دوران یہ پولیس اہلکار انسانیت کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
پولس فورسیس میں حکومتی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی سے متعلق سروے 2013 کے بعد سے نہیں کیا گیا ہے۔ ٹاٹا انسیٹیوٹ اور سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (CSDS) نے مشترکہ طور پر بھارتی پولیس اور مسلمانوں سے متعلق تفصیلی سروے کیا ہے۔ اس سروے میں مختلف زاویے سے پولیس کے رویہ اور مسلمانوں کے تئیں اس کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ اس رپورٹ کو تین سال مکمل ہوچکے ہیں اور چند مہینے قبل ہم نے اس رپورٹ کے ایک حصے پر بات بھی کی تھی۔اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس فورسیس میں مسلمانوں کی نمائندگی تین سے چار فیصد کے درمیان ہے جب کہ جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد ان کی آبادی سے دوگنی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عام مسلمانوں کی سوچ یہ ہے کہ دہشت گردی کے معاملات میں مسلمانوں کو جھوٹے الزامات میں پھنسایا جاتا ہے۔اسی طرح دلت اور قبائلیوں کی یہ سوچ ہے کہ انہیں ماو نوازوں سے تعلق رکھنے کے جھوٹے الزامات میں پھنسایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی جانچ ریاستی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کی جاتی ہے جو کہ مسلمانوں کی آبادی کے حجم کے نصف سے بھی کم ہے۔ رپورٹ میں ایک اور بھی پریشان کن حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے اعداد و شمارنیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تحت کیے جاتے تھے مگر 2013 کے بعد اس طرح کے سروے بند کردیے گئے ہیں۔پولیس میں سماجی تنوع سے متعلق رپورٹ نہیں ہونے کی وجہ سے پولسنگ کے نظام میں بہتری کی امیدوں کو معدوم کر دیا ہے۔
جیلوں میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی ان کی آبادی سے زیادہ موجودگی سے متعلق کئی مختلف سروے اور جائزے لیے گئے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں پولیس کی تحقیقات ناقص اور جھوٹے مفروضوں پر قائم ہیں۔عدالتوں نے بھی طویل سماعت کے بعد اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔2020 میں ہونے والے دلی کے فسادات میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں سے متعلق دلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ چشم کشا ہے۔پولیس نے غیر واضح سی سی ٹی وی کیمروں کی بنیاد پر جن میں چہروں کی شناخت کی مشکل ہے، درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے ۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں چوبیس فیصد ہندو پولیس سے خوف زدہ ہوتے ہیں وہیں چونسٹھ فیصد مسلمان پولیس سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ عیسائیوں میں یہ شرح باون فیصد اور سکھوں میں اکیاون فیصد ہے۔
دلی میں مقیم انسانی حقوق کی وکیل وارثہ فراست بتاتی ہیں کہ فسادات کے وقت پولیس متعصب ہو جاتی ہے اور اکثر مجرموں کے لے سہولت کار بن جاتی ہے جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات رونما ہونے کے اصل اسباب کا پتہ نہیں چل پاتا اور نہ ہی مجرم کیفر کردار تک پہنچ پاتے ہیں۔ چالیس سال قبل 1983فروری میں آسام کے ضلع نوگاوں کے نیلی اور دیگر چوبیس گاوں میں جو بنگالی مسلم اکثریتی علاقہ ہے، اچانک صبح کے وقت مسلح قبائلی اور آسامی نسل پرستوں نے حملہ کر دیا تھا اور محض چار گھنٹوں میں غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق دس ہزار مسلمانوں کا قتل عام کردیا گیا۔ چالیس سال گزر گئے لیکن ان میں سے کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ملی۔تمام مقدمات کو بند کردیا گیا ہے۔عدالت نے بھی نوٹس نہیں لیا۔یہ واقعات اور اعدادو شمار بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہیں جن کے داغ کبھی نہیں مٹ سکیں گے جبکہ نفرت اور انتہاپسندانہ سوچ کی پرورش کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔بنگلہ دیشی کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس میں اب سرکاری سسٹم بھی شامل ہوگیا ہے۔اس لیے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بھارت ایک بار پھر نسل کشی کے دہانے پر ہے، کیوں کہ میڈیا، پولیس، عدالت اور حکومت چاروں نے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں سے آنکھیں موند لی ہیں بلکہ وہ خود نفرتی مہمات کا حصہ بن گئے ہیں، نتیجے میں پورا نظام انصاف معطل ہوکر رہ گیا ہے۔ اب سول سوسائٹی اور پرامن شہریوں کو قائدانہ کردار ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس کے لیے صرف اقلیتوں کو ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام انصاف پسند اکثریتی طبقے کو بھی فکر مند ہونا چاہیے کیونکہ نفرت انگیز مہم صرف اقلیتوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کو تباہ کر دے گی۔
***

 

***

 مختلف تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹوں میں پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان

1992-1993 کے ممبئی فسادات
ممبئی فسادات کے دوران مسلمانوں کی مدد کی اپیل پر پولیس کا ردعمل انتہائی مذموم اور لاپروائی پر مبنی تھا۔ پولیس نے مدد مانگنے کے جواب میں کہا کہ وہ اس وقت ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکتی۔پولیس کو مسلمانوں کی موت پر یہ تبصرہ کرتے ہوئے سنا گیا کہ "ایک مسلمان کم ہوا” پولیس افسران بالخصوص جونیئر سطح کے پولیس افسران مسلمانوں کے تئیں انتہائی متعصب تھے اور ان کا سلوک سفاکانہ اور بعض موقعوں پر غیر انسانی حد تک تھا۔ متعصب پولیس ملازمین کا فسادی ہندو ہجوم کے ساتھ فعال گٹھ جوڑ دیکھا گیا۔ ہندو ملزم کی واضح شناخت کے باوجود مقدمات درج کرنے میں پولیس کی مستعدی میں کمی صاف نظر آئی جب کہ ملزم مسلمان ہونے پر پولیس کو زیادہ مستعد دیکھا گیا۔
کرشنا کمیشن رپورٹ (1992-1993 کے ممبئی فسادات)
1969 کے احمد آباد فسادات
جسٹس جگموہن ریڈی کمیشن رپورٹ انکوائری کمیشن نے نصف درجن سے زیادہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ احمدآباد فسادات (1969) کے دوران پولیس لائنوں یا تھانوں سے ملحق علاقوں میں واقع مسلم مذہبی مقامات پر حملہ کیا گیا یا انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس افسران کی جانب سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ چونکہ وہ دیگر مقامات پر فسادات کو روکنے میں مصروف تھے، اس لیے ان پولیس اسٹیشنوں میں مناسب پولیس فورس موجود نہیں تھی اس لیے حملہ آوروں سے مسجدوں کو بچایا نہیں جاسکا اور نہ ہی ان حملوں میں ملوث کسی بھی مجرم کو سزا دی گئی۔ کمیشن نے لکھا ہے کہ پولیس اسٹیشن کے قریب ہندو عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے کا ایک بھی کیس کمیشن کو نہیں ملا۔
جسٹس جگموہن ریڈی کمیشن کی رپورٹ (1969 کے احمد آباد فسادات )
1970 کے بھیونڈی و جلگاؤں فسادات
جسٹس ڈی پی کمیشن رپورٹ کے مطابق 1970 کے بھیونڈی اور جلگاؤں فسادات میں پولیس افسران نے منظم طریقے سے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پھنسانے اور زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو بچانے کی کوشش کی۔ قطع نظر اس سے کہ وہ بے قصور ہیں یا مجرم۔ شیو سینا، راشٹریہ اتسو منڈل (جن سنگھ کی مقامی شاخ) سے تعلق رکھنے والے بہت سے ہندوؤں کے خلاف مقدمات کی تحقیقات بند کر دی گئیں اور مسلمانوں کے قتل کی متعدد شکایات کی صحیح طریقہ سے جانچ نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا۔ ہندو فرقہ پرست اور مبینہ طور پر فرقہ وارانہ تنظیموں کی تشکیل اور سرگرمیوں کے بارے میں کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ پولیس نے صرف مسلم فرقہ وارانہ اور مسلم تنظیموں کے حوالے سے جانچ کی۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہندو تنظیموں کے کئی لیڈروں کے ساتھ پرائیویٹ کانفرنسیں اور بات چیت کی ۔ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو مسلمانوں کے گھروں میں آتش زنی اور قتل کے جرائم میں ملوث تھے۔
( جسٹس ڈی پی کمیشن رپورٹ)
1984 دلی میں سکھ مخالف فسادات
جے رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر حالات کو کنٹرول کرنے اور سکھ برادری کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں پولیس کا رویہ بے حسی اور لاپروائی پر مشتمل تھا۔ پولیس نے فسادیوں پر قابو پانے کی معمولی کوشش تک نہیں کی ہے۔ رپورٹ میں کئی ایسی مثالیں بیان کی گئی ہیں جہاں پولیس اہلکار فسادیوں کے پیچھے مارچ کرتے ہوئے پائے گئے اور بھیڑ میں گھل مل گئے۔ چونکہ انہوں نے ہجوم کو مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اس لیے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ ہجوم کا حصہ تھے۔ کمیشن یہ جان کر حیران رہ گیا کہ پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے دوران مختلف علاقوں میں سماج دشمن عناصر کے خلاف واضح اور قطعی الزامات کو خارج کر دینا چاہتی تھی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023