قانون اور اخلاقیات کے عنوان پر وکلاء کا پینل ڈسکشن

اخلاقیات اور آزادی کو ہم آہنگ کر کے انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن

حیدرآباد (دعوت نیوز ڈیسک)

’’ہدایاتِ خداواندی جو انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی انسانیت کی رہنمائی کرتی چلی آئی ہیں، ایک اخلاقی فریم ورک فراہم کرتی ہیں جو نظم و ضبط سے بھرپور زندگی گزارنے اور قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار محترمہ نذرینہ درویش، میڈیا انچارج جماعت اسلامی ہند، گوا نے اپنے افتتاحی خطاب میں کیا۔
دراصل پچھلے دنوں حلقہ خواتین کی ایک ماہی مہم کے تحت ’قانون اور اخلاقیات‘ کے حوالے سے ایک آن لائن پینل ڈسکشن ترتیب دیا گیا تھا جس میں قانون سے وابستہ خواتین شخصیات نے اخلاقیات اور قانون کے سلسلے میں اظہار خیال کیا۔
پینل ڈسکشن کی نظامت ایڈووکیٹ تمازر بلواڑی، رکن ZAC گرلز اسلامک آرگنائزیشن، گوا نے کیا۔ تمام پینلسٹوں نے اس موضوع پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایڈووکیٹ انستاسیا گل نے آئینی بدعنوانیوں جیسے، وزیروں پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کو بھارتی جمہوریت کی ساکھ پر سوالیہ نشان قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئینی اقدار جیسے انصاف، آزادی، مساوات، بھائی چارہ، سیکولرزم اور فرد کی عزت و تکریم کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ ادارہ جاتی نگرانی کے نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعہ طاقت کے غلط استعمال کو روکا جا سکتا ہے۔ ایڈووکیٹ انستاسیا گل نے اپنی گفتگو میں قانونی نظاموں میں اخلاقیات کے کردار کو اجاگر کیا، خاص طور پر جرائم کے حساس معاملات جیسے کہ خواتین کے خلاف جرائم، کمیونٹی کی اخلاقیات اور قوانین کے نفاذ وغیرہ کی اہمیت کو ظاہر کیا۔
ایڈووکیٹ افسر جہاں نے قانون اور اخلاقیات کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں قانون سماج کے اندر کے رویوں کو منظم کرتا ہے، وہیں اخلاقیات اس وقت بھی رویوں کو منظم کرتی ہیں جب کوئی فرد اکیلا ہو۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ قوانین اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتے ہیں جو ان کی تشکیل اور نفاذ کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے وکیلوں کو درپیش اخلاقی مخمصوں پر روشنی ڈالی، خاص طور پر اس وقت جب وہ مجرموں کا دفاع کرتے ہیں اور سماجی رویے جو انصاف کے نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔ ایڈووکیٹ افسر جہاں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ذات پات، مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تاریخی امتیازات نے سماجی انتشار کو جنم دیا ہے۔ اور انہوں نے پیغمبر محمد ﷺ جیسے اصلاحی رہنماؤں کو اخلاقی اقدار کے ذریعے مساوات اور جمہوریت کو فروغ دینے پر بھی سراہا۔
ایڈووکیٹ سپنا چودھری نے دلیل دی کہ قانون اور اخلاقیات کا تعلق فرد اور معاشرتی فلاح کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب انصاف اخلاقی بنیادوں پر کیا جاتا ہے تو یہ ایک منصفانہ معاشرے کو فروغ دیتا ہے۔ موت کی سزا کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ ایک خوف دلانے والی سزا ہو سکتی ہے، لیکن حقیقی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مجرم اپنے جرم کو تسلیم کرے اور سخت سزا کا سامنا کرے۔
ایڈووکیٹ فریدہ انصاری نے نشان دہی کی کہ قانون اور اخلاقیات کو ایک دوسرے کی تکمیل کرنا چاہیے۔ انہوں نے قدرتی انصاف (نیچرل جسٹس) کے اصولوں پر زور دیا جو بنیادی اقدار پر مبنی ہیں، انہیں قانونی نظام میں شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے صنفی حساسیت کی اہمیت اور قانونی کارروائیوں میں موجود خامیوں کو دور کرنے پر بھی زور دیا اور کہا کہ قوانین کو معاشرے کے کم زور طبقوں کے تحفظ کے لیے بہتر بنایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انصاف صرف دستاویزات تک محدود نہ رہے بلکہ عملی طور پر نافذ کیا جائے۔
ایڈووکیٹ تمازر بلواڑی نے بحث کو سمیٹتے ہوئے قانون اور اخلاقیات کے درمیان گہرے تعلق پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں قوانین اکثر اخلاقی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں ضروری نہیں کہ ہر قانون اخلاقی ہو اور نہ ہی ہر اخلاقی اصول کو قانون کی شکل دی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی آزادی بے لگام آزادی میں نہیں بلکہ ان اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے میں ہے جو خود نظم و ضبط اور ایک منصفانہ، پُرامن معاشرے کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ جدید دور کے چیلنجوں کے پیش نظر اخلاقی تعلیم کو دوبارہ متعارف کرانے اور آزادی کی حقیقت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اخلاقیات اور آزادی کو ہم آہنگ کر کے ہم ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں جو واقعی انصاف اور اخلاقی معیارات کو برقرار رکھ سکے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024