ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
’مہاراشٹر کی مہابھارت‘ پر فلم بنائی جائے تو ’جوان‘ سے کم دلچسپ نہیں ہوگی
پٹھان کے بعد شاہ رخ خان کی جوان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سنی دیول کی غدر یا اکشے کمار کی او ایم جی اور پربھاس کی آدی پوروش تو باکس آفس پر پٹھان کا ریکارڈ نہیں توڑ سکی، اس لیے جوان کو میدان میں آنا پڑا۔ جوان کی کہانی پٹھان کے آخری مکالمہ کو سچ ثابت کرتی ہے کہ ’کیا کریں دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا‘۔ اس فلم کا پنچ یہ ہے کہ ’بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے باپ سے بات کر ‘۔ اس طرح یہ معاملہ ایکشن اور فکشن سے آگے بڑھ کر حقیقت بن جاتا ہے۔ ’جوان‘ فاسد نظامِ سیاست پر تنقید کرنے کے بعد اسے قابو میں رکھنے کی خاطر انگلی کے اشارے سے ووٹ کی اہمیت بتاتا ہے، نیز اس کااستعمال جذبات کے بجائے دماغ سے کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جو کام کرے اس کو ووٹ دو۔ ظاہر ہے کہ اگر لوگ دماغ کا استعمال کرکے ناٹک کرنے والوں کو ووٹ دینا بند کردیں تو بی جے پی کا دیوالیہ ہو جائے۔ اس دورِ استبداد میں کروڑوں روپیوں کے کاروبار کوخطرے میں ڈال کر ایسا مضبوط سیاسی پیغام دینے کی جرأت کوئی للو پنجو نہیں، شاہ رخ خان ہی کرسکتا ہے۔ جوان کو ملنے والی زبردست پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پیغام اگر سلیقہ سے پیش کیا جائے تو عوام اسے سر آنکھوں پر لیتے ہیں۔
شاہ رخ خان اس کامیابی کے بعد اگر شرد پوار کو مرکزی کردار بناکر ’مہاراشٹر کی مہابھارت ‘ بنائیں تو اس سے نہ صرف موجودہ سیاسی نظام بے نقاب ہوجائے گا بلکہ اس کی مقبولیت راما نند ساگر کی رامائن اور بی آر چوپڑا کی مہابھارت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ ان دونوں سیریلوں کی کامیابی بتاتی ہے کہ ہندوستانی ناظرین کو سیاسی وراثت کی لڑائی میں بہت دلچسپی ہے ۔ رامائن، مہابھارت اور شرد پوار سے اجیت پوار کا تنازعہ اقتدار کی خاندانی رسہ کشی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ جھگڑا ہابیل اور قابیل کے زمانے سے جاری ہے۔ اس کو سلجھانے کی خاطر دنیا بھر میں دیوانی عدالتیں کام کرتی ہیں لیکن جمہوری نظامِ سیاست میں اس کے لیے سب سے پہلے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جاتا ہے۔ فی الحال قومی الیکشن کمیشن کے سامنے این سی پی کے دو دعویدار دھڑوں کی درخواستیں زیر غور ہیں۔
الیکشن کمیشن نے ان دعوؤں کی تفتیش کے لیے دونوں دھڑوں کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تو تیز طرار بھتیجے اجیت پوار نے 30 جون کو ہی اپنا جواب داخل کردیا۔ اس کے بعد اگست میں کمیشن نے پوار دھڑے کو 9؍ ستمبر تک جواب داخل کرنے کا وقت دیا۔ انہوں نے بھی وقت سے پہلے 8؍ ستمبر کو جواب بھیج دیا۔ اجیت پوار دھڑے نے اپنے حلف نامہ میں مطلع کیا تھا کہ پارٹی نے اپنے صدر کو تبدیل کر کے اجیت پوار کو اس عہدے پر فائز کردیا ہے۔ اس دھڑے نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اصلی این سی پی ان کی ہے اس لیے پارٹی پر سارے حقوق، انتخابی نشان اور نام کے مالک وہ ہیں ۔ یہ بیانیہ تو عین توقع کے مطابق ہے مگر اس کے جواب میں امید تھی کہ شرد پوار کہیں گے ایک سازش کے تحت کی جانے والی بغاوت میں شامل سارے لوگ غدار ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شرد پوار نے بڑی متانت سے جواب دیا پارٹی میں کوئی تقسیم ہوئی ہی نہیں ہے۔
شرد پوار نے پارٹی کی تقسیم سے انکار کے بعد لکھا کہ بغاوت کرنے والے چالیس ارکانِ اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے لیے قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کے پاس درخواست دائر کی گئی ہے۔ تب سے اب تک تمام باغیوں کو پارٹی کی ورکنگ کمیٹی اور دیگر عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس طرح شرد پوار نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ پارٹی کے چالیس اراکین اسمبلی اپنا راستہ بدل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا اصرار کہ پارٹی نہیں ٹوٹی، حیرت انگیز ہے۔ کیا یہ دونوں باتیں درست ہوسکتی ہیں؟ عام حالات میں نہیں مگر پوار ہے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اب بیچارہ الیکشن کمیشن کنفیوژن کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کرے تو کیا کرے؟ اس معاملے شرد پوار کے رویہ کا اگر ادھو ٹھاکرے سے موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عمر اور تجربہ کا فرق ہے۔ شیوسینا میں بھی بھجبل اور رانے نے بغاوت کی تھی لیکن وہ سب ادھو کے عملی سیاست میں آنے سے پہلے کی بات تھی ۔ ان کے اپنے دور میں شندے نے پہلی بار ایسا کیا تھا ۔ اس فرق کی دوسری وجہ زیادہ اہم ہے۔ جو انسان خود بغاوت کرتا ہے وہ اس راہ کے پیچ و خم کو خوب اچھی طرح جانتا ہے اور یہ تجربہ ادھو ٹھاکرے کو نہیں ہے۔
اجیت پوار کو خود بغاوت کا تجربہ ہے۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ وہ حلف لے کر استعفیٰ دے چکے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ شرد پوار نے ان کی بغاوت کو نظر انداز کرکے پھر سے نائب وزیر اعلیٰ تو بنا ہی دیا تھا۔ فی الحال اجیت پوار نے جو کچھ کیا ہے یہ سب شرد پوار کئی بار کرچکے ہیں اس لیے انہیں اس پرکوئی حیرت نہیں ہوتی۔ 1977 میں وہ اپنے گرویشونت راو چوہان کے ساتھ اندرا گاندھی کے خلاف کانگریس (یو) میں چلے گئے تھے ۔ اس کے باوجود اندرا کانگریس کے وسنت دادا پاٹل کی وزارت کو بچانے کی خاطر آپسی اختلافات کو بھلا کر انہوں نے حمایت کردی۔ اس سیاسی انحراف کو اقتدار کے لیے برداشت کرلیا گیا۔ 1978 میں پوار نے پہلی بغاوت کرکے پروگریسیو ڈیموکریٹک فرنٹ بناڈالی ۔ جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر وزیر اعلیٰ بن جانے کے لیے یہ ضروری تھا اور وہ اسے کرگزرے ۔
یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی تو یہ کہ مہاراشٹر وکاس اگھاڑی اور پی ڈی ایف میں مہاراشٹر کو ڈیمو کریسی سے تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔ان دونوں تجربات میں اور بہت ساری مشابہت ہے۔مرکز میں اندرا گاندھی کی شکست کے بعد جب مہاراشٹر میں انتخابات ہوئے تو جنتا پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں جیت لیں مگر وہ اکثریت سے محروم تھی ۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کا شکار ریاست کے اندر پچھلے انتخاب کے بعد بی جے پی کی ہوئی حالانکہ اسے اپنی حلیف شیوسینا کے ساتھ اکثریت حاصل تھی۔ مہاراشٹر میں اندرا گاندھی کی مخالف جنتا پارٹی اور شرد پوار کی کانگریس (یو) اگر یکجا ہوجاتے تو دونوں مل کر بڑے آرام سے حکومت کرسکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس (یو) نے جنتا پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے کانگریس (آئی) سے ہاتھ ملا کر وسنت دادا پاٹل سے ہاتھ ملا لیا۔ یہ تو خیر انٹرویل سے پہلے کی کہانی ہے۔ اس جوڑ توڑ سے اجیت پوار کی مانند شرد پوار وزیرِ صنعت و حرفت اور مزدوروں کے وزیر بن گئے ۔ یہ دلچسپ اتفاق بھی کم دلچسپ نہ تھا کہ انہیں سرمایہ داروں کی خدمت کے ساتھ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کا متضاد کام سونپ دیا گیا تھا۔ شرد پوار کے علاوہ سانپ اور نیولے کو یکجا کرنے کا مشکل کام اور کون کرسکتا تھا؟
مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کی مانند پی ڈی ایف کی کہانی میں بھی انٹرویل کے بعد ٹویسٹ آگیا۔ اپنے گرو یشونت راو چوہان سے بغاوت کرکے شرد پوار نے اپنی پارٹی سے بغاوت کی اور پی ڈی اے نام کا جو محاذ بنایا اس میں ان کے نظریاتی حریف جن سنگھ کی آمیزش والی جنتا پارٹی موجود تھی مگر اڑتیس سال کے سب سےکم عمر وزیر اعلیٰ بننے کی خاطر یہ ضروری تھا سو کر گزرے۔ ایسے میں اجیت پوار اگر اپنے چچا سے بغاوت کرکے نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہونے کے لیے بی جے پی کی آغوش میں چلے گئے تو اس میں نیا کیا ہے؟ وہ تو اپنے گرو کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے شاید کہ شرد پوار کو اس پر نہ حیرت ہوتی ہے اور نہ غصہ آتا ہے۔ اندرا گاندھی کی اقتدار سے بے دخلی نے شرد پوار کے لیے وزیر اعلیٰ بننے کا راستہ صاف کیا مگر ستم بالائے ستم فروری 1980 میں اندرا گاندھی اقتدار میں لوٹ آئیں اور ان سے اقتدار کی باگ ڈور چھن گئی۔ اندرا گاندھی نے مہاراشٹر کے انتخاب میں واضح اکثریت حاصل کرکے عبدالرحمٰن انتولے کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔
اس سیاسی الٹ پھیر کے فوراً بعد شرد پوار کے لیے اندرا کانگریس میں لوٹنا مشکل تھا اس لیے وہ کانگریس (سوشلسٹ) میں لگے رہے اور 1983 میں اس کے قومی صدر بن گئے۔ اب ان کا رتبہ ریاستی سطح سے بڑھ کر کل ہند ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے ایک سال بعد پارلیمانی انتخاب لڑا اور کامیابی درج کرائی۔ 1985 تک دوبار لوک سبھا انتخاب جیتنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ دہلی میں دال نہیں گل رہی ہے اس لیے ریاستی سیاست میں لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی واپسی سے کانگریس (ایس) کو فائدہ ہوا۔ اس نے این سی پی کی مانند 54 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور شرد پوار کو پی ڈی ایف محاذ کی طرف سے حزب اختلاف کا رہنما بنایا گیا۔ اس پی ڈی ایف میں اب جنتا پارٹی ہی نہیں بلکہ پی ڈبلیو پی کے ساتھ بی جے پی بھی موجود تھی، اس لیے بی جے پی جیسے نظریاتی حریف کے ساتھ الحاق کرنے کا کارنامہ پہلے چچا نے کیا اور اڑتیس سال بعد بھتیجے نے انجام دیا۔ لالو پرساد یادو کی مانند ہمیشہ بی جے پی کی مخالفت کرنے اور اس کی بڑی بھاری قیمت چکانے کا دعویٰ شرد پوار نہیں کرسکتے۔
اقتدار سے فاصلہ جس طرح اجیت پوار کو بے چین کردیتا ہے اسی طرح کا معاملہ شرد پوار کے ساتھ بھی تھا مگر فرق یہ ہے کہ اس وقت رفتار زمانہ سست تھی اس لیے جو تبدیلیاں برسوں میں ہوتی تھیں اب مہینوں میں ہوجاتی ہیں۔ 1987 کے آتے آتے شرد پوار کو اندازہ ہوگیا کہ کانگریس (آئی) کو اقتدار سے ہٹانا مشکل ہے۔ اس وقت کانگریس میں لوٹنے کی خاطر یہ جواز گھڑا گیا کہ جس شیوسینا کو اشتراکیوں کے خلاف کانگریس نے کھڑا کیا تھا اب اس سے مہاراشٹر کی کانگریسی تہذیب کو خطرہ لاحق ہوگیا ہےاور اس سے مقابلہ کرنے کی خاطر کانگریس میں شامل ہو کر اسے مضبوط کرنا لازمی ہے۔ کون جانتا تھا کہ آگے چل کر ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب شرد پوار کی شیوسینا کے ساتھ حکومت سازی ان کا ماسٹر اسٹروک کہلائے گی اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے ٹھاکرے خاندان کے پہلے فرد ادھو کے سر پر اقتدار کا تاج رکھیں گے۔ یہ زمانے کے ایسے نشیب و فراز ہیں کہ جن کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ انسانوں کا سارا علم و ہوشیاری دھری کا دھری رہ جاتی ہے اور مشیت اس سے وہ سب کروا لیتی ہے جو وہم وگمان سے پرے ہوتا ہے۔
1987میں شرد پوار کا کانگریس میں لوٹنا بھی ایک ماسٹر اسٹروک ہی تھا کیونکہ ایک سال بعد1988 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ شنکر راو چوہان کو دہلی بلوا کر مرکز ی حکومت میں وزیر مالیات بنا دیا۔ اس طرح شرد پوار کی قسمت کھل گئی اور ان کو شیوسینا کی بیخ کنی کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔ اس کے بعد کانگریس کو پارلیمانی انتخاب میں مہاراشٹر میں محض 28 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا اور 1990 کے صوبائی انتخاب میں کانگریس صرف141 نشستیں جیت سکی جو واضح اکثریت سےچار کم تھی۔ اس کے باوجود ایک درجن آزاد امیدواروں کی مدد سے وہ وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے مگر شیوسینا اور بی جے پی کو صوبے کی ایک بڑی طاقت بننے سے نہیں روک سکے۔ راجیو گاندھی قتل کے بعد نرسمہا راو وزیر اعظم بنے اور انہوں نے بحالتِ مجبوری اپنے حریفِ اول شرد پوار کو مرکزمیں وزیر دفاع تو بنا لیا مگر نجات کا راستہ ڈھونڈتے رہے ۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی کے فسادات نے نرسمہا راو کو شرد پوار کا کانٹا نکالنے کا نادر موقع عنایت کردیا ۔ وزیراعظم نے ان کو وزیر اعلیٰ بننے کی پیشکش کی اور انکار کی صورت میں شنکر راو چوہان کو بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق شرد پوار مہاراشٹر لوٹ آئے۔ انتخاب کے بعد اپنی کرسی محفوظ کرنے کی خاطر انہوں اپنے وفادار آزاد امیدوار کھڑے کیے تاکہ کانگریس ان کی محتاج ہو اور وہی وزیر اعلیٰ بنیں مگر وہ داو الٹ گیا۔ شرد پوار کے حامی آزاد امیدواروں نے کانگریسیوں کو تو ہرایا مگر خود جیت نہیں سکے اور سینا بی جے پی سے صوبائی انتخاب ہار کر اقتدار سے محروم ہوگئے۔ کانگریس کی آپسی جنگ نے پہلی بار مہاراشٹر کے اندر غیر کانگریسی حکومت بننے میں بلا واسطہ مدد کی اور شیوسینا کے منوہر جوشی وزیر اعلیٰ بنے۔ اس بیچ نرسمہا راو کی مقبولیت چونکہ بہت کم ہو چکی تھی اس لیے کانگریس کو وزیر اعظم کی حیثیت سے کسی نئے چہرے کی تلاش تھی اور عوام کی نگاہیں سونیا گاندھی کی جانب اٹھ رہی تھیں اور انہیں سیتا رام کیسری کی جگہ پارٹی کا صدر بنادیا گیا تھا۔
شرد پوار نے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیےطارق انور اور پی ایم سنگما کے ساتھ مل کر اطالوی نژاد سونیا کے خلاف محاذ کھول دیا اور ان کی جگہ مقامی چہرے کا نعرہ بلند کیا۔ کانگریس پارٹی یہ باغیانہ تیور برداشت نہیں کرسکی اور تینوں کو ورکنگ کمیٹی سے نکال باہر کیا گیا۔ اس طرح 1999 میں اپنے بھتیجے اجیت پوار کی مانند شردپوار نے پھر سے بغاوت کی اور یوں نیشنل کانگریس پارٹی کا قیام عمل میں آیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ 1999 میں جہاں مرکز کے اندر اٹل بہاری کی سرکار آئی اور تیرہ دن بعد گر گئی مہاراشٹر کے اندر شیوسینا بی جے پی اپنی اکثریت قائم نہیں رکھ سکی۔ اس وقت نارائن رانے کی قیادت میں جو کچھ ہوا وہی 2019میں بیس سال بعد دیویندر پھڈنویس کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ بھی دوبارہ اپنے حلیف شیوسینا کے ساتھ حکومت بنانے میں ناکام رہے جس سے شرد پوار کو موقع مل گیا۔ شرد پوار نے بیس سال قبل بھی اس فائدہ اٹھانے کے لیے کانگریس کے ساتھ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد قائم کرلیا تھا اور دوسری بار کانگریس سے مصافحہ کر کے شیوسینا سے معانقہ کرلیا ۔
2004 میں 71 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے این سی پی مہاراشٹر میں سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی مگر شرد پوار نے اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کے بجائے اپنے اور پرفل پٹیل کے لیے مرکز میں وزارت حاصل کرکے کانگریس کے ولاس راو دیشمکھ کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا اور چھگن بھجبل کو نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اکتفا کرنا پڑا۔ شرد پوار کی چھٹی حِس اس قدر مضبوط ہے کہ انہیں شاید 2012 میں ہوا کے رخ کی تبدیلی کا اندازہ ہوگیا تو انہوں نے انتخابی سیاست سےکنارہ کشی کرکے ایوان بالا کی رکنیت اختیار کرنے کا اعلان کیا تاکہ نئے لوگوں کو موقع مل سکے اور وہ اپنی دختر نیک اختر کو نوجوان قیادت کے طور پر پیش کیا جن کا نام پوار کے بجائے سولے تھا۔ 2017 میں حزب اختلاف شرد پوار کو صدارتی امیدوار بنانا چاہتا تھا مگر وہ جانتے تھے کہ جیت ناممکن ہے اس لیے معذرت کرلی اور وہی ہوا۔ 2019 کے قومی انتخاب میں جہاں کانگریس کو مہاراشٹر میں صرف ایک نشست پر کامیابی ملی شرد پوار نے اپنے پانچ امیدوار وں کو کامیاب کرکے اپنی طاقت دکھا دی۔
بی جے پی اور شیوسینا کی سیاسی چپقلش کا فائدہ اٹھاکر شیوسینا کی مدد سے حکومت سازی کر ڈالی۔ یہ تجربہ امیت شاہ کی چانکیہ نیتی کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حکومت نہیں بناسکی تھی۔ اس کا سہرا شرد پوار کے سر بندھا مگر بی جے پی نے شیوسینا کو توڑ کر وہ حکومت گرا دی اور این سی پی کو توڑ کر ان کے بھتیجے کو اپنے ساتھ ملالیا۔ مہاراشٹر کی اس مہابھارت میں پوار خاندان اقتدار کی خاطر کورو پانڈوکی مانند ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ہوا ہے۔ ست یگ کی مہابھارت میں بھی یہی منظر تھا اور مہاراشٹر کی مہابھارت میں وہی نظارہ ہے۔ شاہ رخ خان کو اس پر سیریل بنانا چاہیے ۔ اس سے ان کی جیب بھرے گی اور عوام کے سامنے تفریح کے ساتھ جمہوری نظام کے حقائق بھی کھل کر آجائیں گے۔ یہ سیریل کنگ خان کی پٹھان اور جوان سے بھی زیادہ مقبولِ عام ہوجائے گا ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
’جوان‘ فاسد نظامِ سیاست پر تنقید کرنے کے بعد اسے قابو میں رکھنے کی خاطر انگلی کے اشارے سے ووٹ کی اہمیت بتاتا ہے نیز اس کا استعمال جذبات کے بجائے دماغ سے کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جو کام کرے اس کو ووٹ دو۔ ظاہر ہے کہ اگر لوگ دماغ کا استعمال کرکے ناٹک کرنے والوں کو ووٹ دینا بند کردیں تو بی جے پی کا دیوالیہ ہو جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023