ڈاکٹر ظہیردانش عمری
مدیر سہ ماہی ارتعاش، کڑپہ
جامعہ دارالسلام عمرآباد میں میرا داخلہ جماعت چہارم میں ہوا۔ دارالعلوم حیدرآباد میں حفظ اور عالمیت کی تین جماعتوں کی تکمیل کے بعد میں نے جامعہ کا رخ کیا۔ جامعہ سے تعارف کا واسطہ میرے جگری دوست سیف اللہ خالد تھے کیونکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک مرتبہ میں ان سے ملاقات کی غرض سے جامعہ گیا اور جامعہ دارالسلام کی خوب صورت اور دل موہ لینے والی عمارتیں دیکھیں تو مجھے لگا کہ یہی وہ درس گاہ ہے جس کی تلاش مجھے تھی۔ بہر حال بڑی مشکل سے میرا داخلہ جامعہ دارالسلام میں ہوگیا۔ میرے ممتحن مولانا سعید احمد عمری متوطن وانمباڑی تھے۔ انہوں نے مجھ سے منطق اور حدیث کے سلسلے میں کچھ سوالات کیے۔
مجھے شعر و ادب سے دل چسپی بچپن سے ہی رہی ہے۔ گھر میں جتنی کتابیں تھیں انہیں کب کا پڑھ چکا تھا، مزید کتابوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو مکتبہ جامعہ، دہلی اور مکتبہ نعیمیہ دیوبند سے منگوا کر پڑھتا تھا۔ بہر کیف عمرآباد آنے پر اس ذوق میں اور نکھار آنے لگا،اہل علم اور اہل ادب سے خط وکتابت رہنے لگی،دریں اثنا جامعہ دارالسلام کے سالانہ مشاعرے کے انعقاد کا وقت ہوا،باقاعدہ مشاعروں میں میری شرکت کا یہ پہلا موقع تھا،اس سے قبل میں مشاعروں کے بارے میں صرف سنا کرتا تھا،الغرض مشاعرہ منعقد ہوا اور بڑی دھوم دھام سے ہوا،مشاعرے میں جوان اور ضعیف العمر دونوں قسم کے شعراء موجود تھے،جوانوں میں کسی کے کلام نے متأثر نہیں کیا،زیادہ تر وہ لوگ شاعر بن کر بیٹھے ہوئے تھے جو شاعر تو نہیں تھے البتہ گایک ضرور تھے،اپنے گلے کے بل بوتے پر اشعار کی داد وصول کر رہے تھے،میں اسی ادھیڑبن میں مبتلا تھا کہ کوئی ایک آدھ معیاری شعر بھی سن سکوں گایا نہیں۔ دریں اثناءکاوش بدری کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی،جب انہوں نے اپنا کلام پیش کیا تو مجھے سخت تعجب ہوا، ایسا معیاری کلام پہلی بار سننے کو مل رہا تھا،کاوش بدری کا نام میرے لیے قطعی نا مانوس تھا مگر کلام سننے کے بعد ملاقات کا اشتیاق دل میں پیدا ہوا کہ اس شخصیت سے ضرور ملاقات کرنا چاہیے،جب مشاعرہ ختم ہوا اور میرے ساتھی اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے تو میں نے کاوش سے سرسری ملاقات کی،جب صبح ہوئی تو میں کاوش کے عارضی ٹھکانے میں آن وارد ہوا جہاں شاداب بے دھڑک بھی تشریف فرماتھے۔ میں اپنے دو خاص دوستوں یعنی احسان خان اورشیخ اسماعیل، حیدرآباد کے ساتھ تھا، مجھے اتنا تو پتہ چل چکا تھا کہ کاوش کا تعلق عمرآباد کے قریبی شہر آمبور سے ہے ۔لہٰذا ان کے مکان کا پتہ دریافت کیا تو کاوش نے کہا کہ’’چھوٹی مسجد کے بازو میں چوتھا مکان‘‘ اس کے بعد ان سے دیگر موضوعات پر گفتگو ہوئی، تکلفات کے بے شمار پردے درمیان میں حائل تھے لہٰذا کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد اپنے کمروں کی طرف ہم لوگ گامزن ہوئے۔ ایک ہفتے بعد جمعہ کے دن ہم لوگ کاوش بدری کے گھر گئے انہوں نے بہترین چائے پلائی،بڑے اخلاص اور محبت سے گفتگو کرنے لگے،اس وقت کاوش سے جو تعلق جڑا وہ جامعہ سے فراغت تک یعنی چار سال تک برقرار رہا،جب کاوش کے ذاتی حالات کے بارے میں علم ہوا تو سخت رنج ہوا، کاوش حد درجہ سادہ لوح تھے،اپنی محبوبہ ممتاز جان ادا کا تذکرہ وقتاً فوقتاً کیا کرتے تھے۔کاوش کی ’’کاویم‘‘ پر مولانا حمیدالدین حسامی عاقلؒ نے کفر کا فتوی لگایا تھا تو کاوش بہت عرصے تک چھپ کر رہے۔ وہ ایسے عالموں سے بہت نالاں تھے جو بات بات پر کفر کا فتوی صادر کیا کرتے ہیں ۔
کاوش بدری سے ہر جمعہ ملاقات کرنا میرا معمول تھا،آخری دنوں میں آنکھوں کی بصارت بھی تقریباً ختم ہوچکی تھی،حافظہ بھی آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑتا جارہا تھا،انہوں نے اپنے حسب حال اک شعر کہہ رکھا تھا جو عموماً خطوط میں لکھوایا کرتے یا آنے جانے والوں کو سنایا کرتے تھے :
چلنے پھرنے کی سکت کے ساتھ بینائی گئی
اب یہ عالم ہے کہ خود سے بھی شناسائی گئی
کاوش کے نام جتنے خطوط آتے میں پڑھ کر سناتا اور مجھ سے ہی ان تمام خطوط کے جواب لکھواتے اور نذرِ ڈاک کرنے کی ذمہ داری بھی مجھی کو سونپتے،ان کے نام بہت سے رسائل اعزازی طور پرآتے تھے جن میں شب خون،شاعر،عصری ادب،استعارہ قابل ذکر ہیں۔ ان رسائل میں کوئی مضمون پسند آتا تو مجھے بآواز بلند پڑھ کر سنانے کی فرمائش کرتے، کبھی اپنی زندگی کے حالات بیان کرنے لگ جاتے۔ انہوں نے مدراس میں کافی وقت گزاراتھا۔ وہاں کے واقعات چسکے لے لے کر سناتے تھے۔ پنشن کے پیسوں سے گھر کا چلنا بہت مشکل تھا ،پھر بھی جیسے تیسے گزارہ ہو جاتا تھا ،جب بھی ان سے ملاقات کے لیے جاتا چائے ضرور پیش کرتے۔
کاوش بدری حقیقت میں بڑے شاعر تھے ،شاعری کے لیے انہوں نے اپنی زندگی تباہ کرلی،اپنی جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر اپنی انانیت اور انا پسندی سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ ان کا مجموعہ کلام ’’کن فیکون‘‘ (جو ان کی غزلیات کا مختصر اور کڑا انتخاب ہے) خلیل مامون کی توجہ سے شائع ہوا۔اگرچہ یہ انتخاب کاوش کا نمائندہ انتخاب نہیں کہا جاسکتا پھر بھی قدرے غنیمت ہے۔ کاوش زبان کے معاملے میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے ،ان کا جو موقف ہوتا اسے ثابت کرنے کے لیے ڈٹ جاتے،اس حوالے سے مختلف اخبارات ورسائل کو خطوط بھی لکھا کرتے تھے۔ خط کے ذکر سے یاد آیا کہ وہ مشاہیر ادب سے خط وکتابت کے عادی تھے اور ان کے خطوط بڑی حفاظت سے رکھا کرتے تھے، نہ جانے یہ ذخیرہ کہاں گیا اور اس کا کیا حشر ہوا؟ وقتاً فوقتاً ناچیز کو ان خطوط کی زیارت کا شرف بھی بخشا کرتے تھے ۔ناچیز کاوش کے سر کی مالش بھی کبھی کبھی کردیا کرتا تھا۔ کسی حادثے کی وجہ سے ان کا پیر بھی متأثر ہواتھا ،اسے بھی دبا دیا کرتا تھا تو کہتے تھے اچھا لگ رہا ہے۔ غالب کے شعر سے زیادہ مزے دار ہے۔
جامعہ میں جب بھی سالانہ مشاعرہ ہوتا بالخصوص ان دنوں جب میں جامعہ کا طالب علم تھا تو کاوش بدری کو بلا لانے کی ذمہ داری مجھے سونپی جاتی۔اخیر اخیر میں جب کاوش کی بینائی از حد متأثر ہوئی اور وہ اپنے اشعار دیکھ کر پڑھنے سے بھی معذور ہوگئے تو میں عمداً اس ذمہ داری سے کنارہ کش ہوگیا کہ مشاعرے میں طلبا کا استہزا کرنا ناچیز کے لیے بڑی اذیت کا باعث ہوا کرتا تھا ۔
کاوش کبھی کبھی مذاق بھی کرلیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مجتبیٰ حسین کا خط آیا اور انہوں نے کہا کہ پڑھ کر سناؤ ،جواب میں میں نے کہا کہ مجھے ہندی نہیں آتی،اس سے وہ بہت محظوظ ہوئے،حالانکہ خط اردو میں لکھا ہوا تھا لیکن لگتا تھا کہ تحریر ہندی ہے۔
مطالعے کی غرض سے میں بسا اوقات کاوش سے کتابیں مستعار لیا کرتا تھا،باقاعدہ انہیں واپس بھی کرتا تھا،وہ میری اس عادت سے بہت خوش ہوتے،کاوش کے جاننے والے زیادہ تر کتابیں مستعار لیتے مگر واپس کرنا بھول جاتے،اس وجہ سے ان کی بہت سی کتابیں ادھر ادھر بکھرگئیں، مطالعے کے اس انہماک اور شوق کو وہ بہت پسند کرتے تھے،میں کبھی کوئی مضمون /مقالہ /افسانہ لکھتا تو ان کو ضرور سناتا وہ اغلاط کی اصلاح کرتے اور مفید مشورے دیتے،اگر ایک عرصے تک کوئی چیز لکھ کر نہیں دکھاتا تو فرمائش کرکے لکھواتے۔ اپنے لڑکوں کی ادب سے عدم دلچسپی پر کڑھا کرتے تھے،ناچیز کو اولاد معنوی کہا کرتے تھے،ظہیر دانش کے بجائے ظہیر دانی کہہ کر مخاطب کرتے اور اس بات پر اصرار کرتے کہ میں اپنا تخلص دانیؔ کر لوں۔ جیسے اردو کا مشہور شاعر بانیؔ ہے۔ مگر مجھے دانش ہی زیادہ پسند تھا ،یہ میرے استاد کا عطا کردہ تخلص تھا۔ کاوش کے دادا کا نام بدر الدین تھا،اُنہیں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدری کہتے تھے ۔
کاوش نے تمل ناڈو کی چار سوسالہ عربی وفارسی ادبیات کی تاریخ بھی تحریر کی تھی جو قومی کونسل نئی دہلی سے شائع ہوچکی ہے۔ کاوش کی کم علمی کی بنیاد پر بہت سی اغلاط ان کتابوں میں راہ پاگئے ہیں جن کی نشان دہی ڈاکٹر راہی فدائی نے کی تھی۔ کاوش نے جب یہ مضمون پڑھا تو بڑے طیش میں آگئے لیکن جب ان کا غصہ تھما تو سنجیدگی سے اس پر غور کرنے لگے بالآخر مان گئے کہ غلطی ان سے ہی ہوئی ہے۔
کاوش کی اب تک جتنی کتابیں شائع ہوئیں ہیں ان کے نام یہ ہیں (۱) کاویم (مونولاگ) (۲)مثنوی قبلہ نما (۳)شتردھا نجلی (۴)کن فیکون (۵) قدیم تمل ناڈو میں عربی وفارسی ادبیات کی چار سو سالہ تاریخ۔ جلد اول عربی ۔
کاوش کسی بھی رسالے کو اس وقت تک کلام ارسال نہیں کرتے تھے جب تک کہ ان سے کلام ارسال کرنے کی فرمائش نہ کی جاتی۔ ایک مرتبہ اقبال فرید میسوری کی کتاب ’’رنگ دگر‘‘ آئی تھی تو انہوں نے مجھے کتاب دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو بھئی!میسور سے کسی کا خط اور کتاب آئی ہے لکھا ہے کہ ان کی تعریف لکھ کر بھیجو۔
کاوش بدری مدراس میں بھی ایک طویل عرصہ گزار چکے تھے۔ مدارس کے بہت سے شاعروں اور ادیبوں سے آپ کے رسمی وغیر رسمی تعلقات تھے۔ ہفت روزہ ’’اتحاد‘‘ میں کاوش نے خلیل خاں فاختہ کے قلمی نام سے ایک یا دو سال تک مسلسل مزاحیہ کالم لکھے۔ کاوش سے بسا اوقات مذہبی موضوعات پر بھی بحث ہوتی تھی ،وہ میری بات سنتے ہی نہیں تھے بلکہ بس اپنی کہے جاتے ،اپنے دلائل اور اپنے موقف کو ہی صحیح قرار دیتے ،مخاطب کا موقف خواہ صحت کے کتنے قریب ہی کیوں نہ ہو غلط قرار دیتے ۔
کاوش زبان کے معاملے میں بڑے شدت پسند واقع ہوئے تھے ،زبان وبیان کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی نظر انداز نہیں کرتے ،الفاظ کی تذکیر وتانیث کے سلسلے میں اکثر وبیشتر میں بحث کرتا تھا ،بحث کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا تو اپنی فیروز اللغات نکالنے کا حکم دیتے اور اس سے فیصلہ کرتے ۔میں ہر جمعہ کاوش کے یہاں جایا کرتا تھا،جب بھی ان کے پاس جاتا اپنی بیٹی کے یہاں سے بریانی منگوایا کرتے جو بہت لذیذ ہوتی۔ دور طالب علمی میں یہ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت تھی۔تمل ناڈو کے لوگ بریانی میں سالن نہیں لیا کرتے ہیں،ان کا استدلال یہ ہے کہ سالن اس میں پہلے سے ملا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ لوگ بریانی میں’ اچار‘ استعمال کرتے ہیں ،کاوش کی دیکھا دیکھی مجھے بھی اس کی عادت پڑگئی تھی۔
کاوش نے غزل میں جو مقام پیدا کیا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اپنی ذاتی زندگی کے حالات وواقعات کو غزلانے میں کاوش کا ثانی نہیں۔ گھر کے اندر جو چیقلش ہوتی ہے اس کا تذکرہ بھی انہوں نے اپنی کئی غزلوں میں کیا ہے ۔
کاوشؔ کی شعری عظمت کا بڑے بڑے نقادوں اور ماہرین فن نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے تقریباً پچاس سال دشت غزل کی سیاحی کی ہے، مگر آج بھی ویسا ہی عزم جوان رکھتے ہیں جیسا کہ پچاس سال قبل رکھتے تھے۔ ان کی عمر ستر سے متجاوز ہو چکی ہے مگر وہ تھکتے ہوئے نظر نہیں آتے، (جس وقت یہ مضمون تحریر کیاگیا تھا وہ بقید حیات تھے) اردو کے تقریباً تمام باوقار رسالوں میں ان کا کلام شائع ہوتا ہے۔ وہ غزلیں بہت خوبصورت آہنگ میں کہتے ہیں۔ کاوشؔ ہمیشہ ان کہی کہنے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ انہوں نے نظم سے زیادہ غزل کو وسیلہ اظہار بنایا ہے، غزل میں وہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو تڑپا دیتے ہیں
سمٹ گئے تو ہمارا اتہ پتہ نہ ملا
بکھر گئے تو جہاں بھر کی داستانوں میں ملے
کسی کے نرم لب کی کپکپاہٹ ہے لکیروں میں
مگر رنگوں میں استقلال کے تیور نمایاں ہیں
کس خوبصورتی سے انہوں نے خیالات کو اظہار کی زبان دی ہے، ان کی طبیعت کی بے نیازی ان کے کلام کا جز بن چکی ہے ؎
قبول نہیں ہوتی ایک بھی دعا میری
میں کیا کروں مرا دست دعا ہی ایسا ہے
وہ زبان کے مسئلے میں ذرا سی بھی نرمی برداشت نہیں کر سکتے، ایک لفظ بھی وہ غلط استعمال کرنے کو روا نہیں رکھتے، مگر بعض مقامات پر ان کی شاعری نے تمل ناڈو کا اثر قبول کیا ہے، کاوشؔ کے بعض اشعار سہل ممتنع کا درجہ رکھتے ہیں
قدر مردم بعد وصال
قدر نعمت بعد زوال
ساری کتابیں حوض میں پھینک
نیکی کر دریا میں ڈال
گھر کا پیر حقیر فقیر
گھر کی مرغی دال مثال
ایک خدا ہے ایک رسول
ایک ہے آدم کی آل
باطن یک دم ستھرا ہے
کاوشؔ پر کیچڑ نہ اچھال
ان کے اشعار انتہائی تاثر سے بھرے ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے، وہ دنیا دیکھے ہوئے ہیں، اچھے اچھوں سے ان کا پالا پڑ چکا ہے تو برے بروں سے بھی واسطہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری تجربات کا بحر بیکراں معلوم ہوتی ہے۔ ’’بازار گرم ہونا‘‘ کو شاعر نے ایک نئے معنیٰ میں کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ملاحظہ کیجیے :
اسے تو جسم کا بازار گرم کرنا تھا
بڑھاکے ساز وصدا کی دوکان کیا کرتا
خلیل مامون کاوشؔ بدری کی غزلی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس مستقل مزاجی میں کلاسیکی اور جدید دونوں رنگ ایک دوسرے میں ایسا گھل مل گئے ہیں کہ ہم انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کر سکتے، ان دونوں کے امتزاج سے ایک ایسا رنگ ابھرتا ہے کہ جسے کسی معلوم رنگ کا نام نہیں دے سکتے، اور یہی کاوشؔ بدری کی غزل کا جوہر ہے‘‘۔
کاوشؔ کو موجودہ دور کے معاشرتی مسائل اور اخلاقی شکستگی کا خوب احساس ہے، موجودہ دور میں جہاں مادی اعتبار سے خوب ترقیاں ہوئیں، وہیں روحانی لحاظ سے زمانہ حال انحطاط کا شکار ہے، شرم وحیا، نیک اخلاق، سچائی، ایمان داری، پیار ومحبت جیسے اعلیٰ قدروں کا کوئی مول نہیں رہا ؎
قضا کا شکر ہے اس نے کفن تو بخشا ہے
مگر حیات تو کپڑے اتار لیتی ہے
***
ادب میں بن گئی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد
عجب نہیں کہ مرا نام بھی اذاں میں ملے
***
کسی کے عیب وہنر کا کوئی سوال نہیں
ہر ایک کام رسوخ واثر سے نکلے گا
***
مکاں مکیں کے معیار سے اونچا ہے
نماز ہو گئی لاغر ،حرم توانا ہے
***
گرانیوں میں گراں باریٔ حیات نہ پوچھ
قریب رہ کے ہر ایک دوست دور رہتا ہے
***
عجیب شخص ہے دن رات گھر میں رہتا ہے
مگر حضر سے زیادہ سفر میں رہتا ہے
جناب شمس الرحمن فاروقی نے 7؍ اپریل کو کاوشؔ بدری کے نام لکھے ہوئے ایک مکتوب میں ’’کن فیکون‘‘ کی اس طرح تعریف کی ہےکہ ’’ اس زمانے میں آپ جیسا بہتر اور مضمون آفریں غزل گو کوئی نہیں ہے، زبان کے حسن اور آہنگ کی روانی سے آپ چار چاندلگا دیتے ہیں‘‘۔
انہیں چند باتوں پر اپنا مضمون ختم کرتے ہوئے دعا گوہوں کہ اللہ تعالی کاوش کی لغزشوں سے درگزرکرے اوران کی نیکیوں کو قبول فرمائے آمین!
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024