کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے ۔۔۔ زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
روس کا ’یوکرین معاہدہ گندم‘ کی تجدید سے انکار
مسعود ابدالی
گیہوں کی قیمت میں اضافہ۔ صومالیہ، یمن، مصر، لبنان اور شام سمیت کئی ممالک کو اناج کی قلّت کا سامنا
مغربی ممالک بحیرہ اسود میں اناج راہداری کی بحالی کے لیے روس کے مطالبات پر توجہ دیں: طیب ایردوان
روس نے ’یوکرین معاہدہ گندم‘ کی تجدید سے انکار کر دیا ہے۔ ماسکو سے سترہ جولائی کو ایک ہنگامی اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق یوکرین کی بندرگاہوں سے بحر اسود آنے والے تمام جہازوں کو بلا استثنیٰ عسکری ہدف تصور کیا جائے گا۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی گندم کی قیمتیں نو فیصد بڑھ گئیں۔
یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتا تھا ویسے ہی یوکرین اور روس کا سرحدی علاقہ روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ پچاسی لاکھ ایکڑ کے رقبے پر گندم، جو، مکئی، رائی کے تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ اسی لاکھ ٹن گندم برآمد کیا جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔
یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔ لیبیا اپنی ضرورت کا تینتالیس اور یمن بائیس فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔ افریقی ممالک، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والے گندم کا اٹھائیسں فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس تیس لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔
بدقسمتی سے مشرقی یورپ کا یہ زرخیر خطہ نو برس سے میدان جنگ ہے۔ یہاں جنگ و جدل کا آغاز فروری 2014 میں ہوا جب جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضے کے ساتھ ہی مشرقی یوکرین کے ڈونیسک Donetsk اور لوہانسک Luhansk صوبوں کے کچھ علاقوں پر روس نواز باغیوں نے قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس علاقے کو جغرافیہ داں ڈونبس Donbas کہتے ہیں۔ گزشتہ برس فروری میں روس نے یوکرین پر بھر پور حملہ کردیا جسے کریملن نے ’خصوصی عسکری کارروائی‘ قرار دیا۔ نیٹو رکنیت کے لیے یوکرین کی خواہش اس حملے کی بنیادی وجہ تھی۔
اس جنگ میں جہاں ایک طرف بے گناہ یوکرینی شہری مارے جارہے ہیں، ساٹھ لاکھ سے زیادہ شہری پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں اور ہنستے بستے ملک کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔وہیں اس جنگ نے توانائی اور غذائی بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔
قدرت کی مہربانی سے گندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیت اب تک محفوظ ہیں۔ تاہم پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور اس بار گندم کے برآمدی حجم کا تخمینہ ایک کروڑ ستر لاکھ ٹن ہے۔ کھیت تو محفوط رہ گئے لیکن جنگ کی وجہ سے غلےکی برآمد انتہائی مشکل کام ہے۔ گندم اور دوسرے غذائی دانوں کی برآمد کے لیے بحر اسود میں کھلنے والی اوڈیسا اور مائیکولائیف (روسی تلفظ نائیکولائف) بندرگاہیں استعمال ہوتی ہیں،۔
ان بندرگاہوں پر جہاز سازی کا کام بھی ہوتا ہے جس میں یوکرینی بحریہ کے عسکری جہاز شامل ہیں، جس کی وجہ سے یہ بندرگاہیں روس کی ’خصوصی‘ توجہ کا مرکز بن گئیں۔ روسی بحریہ نے یوکرین کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ کشیدگی کی بنا پر تجارتی جہازوں کے لیے اوڈیسا سے گندم اٹھانا ممکن نہ رہا اور ساری دنیا خاص طور سے افریقہ اور بحر روم کے ممالک میں غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ترک صدر طیب ایردوان نے غذائی بحران کو کافی پہلے بھانپ لیا تھا، چنانچہ انہوں نے روس اور یوکرین سے بات چیت شروع کر دی۔ غلے کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے ترک صدر نے اپنے وزیر دفاع اور بحریہ کے سربراہ کو روسی و یوکرینی ہم منصبوں سے گفتگو کی ہدایت دی۔ روس کو خدشہ تھا کہ امریکہ گندم اٹھانے کی آڑ میں بحری راستے سے یوکرین کو اسلحہ بھیجنے کی کوشش کرے گا۔
بحر اسود اور بحر روم پر ترک بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط ہے اور روس و یوکرین دونوں کو صدر ایردوان پر اعتماد ہے۔ گزشتہ سال اگست میں ترکیہ، روس، یوکرین اور اقوام متحدہ کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت گندم اٹھانے کے لیے اوڈیسا جانے والے جہازوں کی باسفورس پر روس، یوکرین اور ترک بحریہ تلاشی لیں گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان پر اسلحہ یا کوئی دوسرا قابل اعتراض مواد نہیں۔ اسی کے ساتھ ترک بحریہ نے گندم بردار جہازوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ معاہدے کے مطابق غلے سے لدے جہازوں کو ترک نگرانی میں بحر اسود سے آبنائے باسفورس کے ذریعے بحیرہ مرمرا (نہرِ استنبول) کے راستے بحر روم پہنچایا جائے گا۔ یہ معاہدہ اس سال اٹھارہ مارچ تک کے تھا جکی صدر ایردوان کی درخواست پر نوے دنوں تک کے لیے توسیع کر دی گئی۔
اس ماہ کی سترہ تاریخ کو آبنائے کرچ Kerch پر بنے پل کو نشانہ بنایا گیا۔ روس کو کریمیا سے ملانے والا یہ پل، فوجی کمک کا کلیدی راستہ ہے۔ اس پل پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے پہلے بھی حملہ ہو چکا ہے لیکن اس بار یوکرینی بحریہ نے حملے کے لیے مبینہ طور پر زیرِ آب ڈرون استعمال کیے۔ روسی بحریہ کو شبہ ہے کہ حملہ آور بحری ڈرون اوڈیسا سے رونہ کیے گئے تھے۔ اسی بنا پر روس کا موقف ہے کہ یوکرینی بندرگاہوں سے بحر اسود کی طرف آنے والے جہازوں اور بحری ٹریفک پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا لہذا سترہ جولائی کو معاہدے کی مدت مکمل ہونے پر اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
یوکرینی غلے کی فراہمی رکنے سے قرنِ افریقہ (Horn of Africa) کے ممالک خاص طور سے صومالیہ بری طرح متاثر ہوگا جس کا بڑا علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ اس ملک میں گزشتہ سال غذائی قلت سے چالیس ہزار اموات ہوئیں جن کی اکثریت ننھے بچوں کی تھی۔ اس کے علاوہ یمن، مصر، لبنان اور شام کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ کرش پل پر ڈرون حملے سے مشتعل ہوکر روس نے معاہدے کی تجدید سے انکار کیا ہے۔ غیر جانب دار ذرائع چچا سام کے تجزیے سے متفق نہیں ہیں۔گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران غلے سے لدے درجنوں جہاز لاکھوں ٹن گندم اور دوسرا غلہ لے کر اوڈیسا سے روانہ ہوئے۔ باسفورس میں جہازوں کی تلاشی کا بہت ہی موثر انتظام ہے اور گزشتہ سال اگست سے اب تک کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ بحری قزاقی کی کوئی واردات ہوئی۔ اس تناظر میں ڈرون حملے کو روس کے اس غیر متوقع اور غیر منطقی رویہ کا واحد جواز قرار دینا مشکل ہے۔ پل پر ڈرون حملے کے بعد روس نے یوکرین کی ناکہ بندی تو سخت کر دی ہے لیکن گندم معاہدے کی تجدید سے انکار کے اصل عوامل کچھ اور ہیں۔
روس کے سرکاری موقف میں بھی ڈرون حملے کا ذکر نہیں۔ تجدید سے انکار کا اعلان کرتے ہوئے روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف Dmitry Peskov نے کہا کہ روسی غذائی اجناس کی برآمدات پر غیر ضروری پابندیاں عائد ہیں۔ کریملن کے ترجمان نے یقین دلایا کہ جیسے ہی روسی غلے کو یوکرینی مال کی طرح بازار تک آزادانہ رسائی ملے گی ماسکو فوری طور پر معاہدے کی تجدید کردے گا۔ ہفتہ بائیس جولائی کو ماسکو میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے روس کے صدر ولادیمر پوتن نے کہا کہ ’’معاہدے کا بنیادی مقصد یعنی ضرورت مند ممالک کو اناج کی فراہمی، پورا نہیں ہوا کیونکہ روس کو اپنا غلہ اور اجناس برآمد کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے‘‘۔ گزشتہ دنوں روسی صدر نے اپنے ترک ہم منصب سے باتیں کرتے ہوئے جناب ایردوان سے شکوہ کیا تھا کہ معاہدے میں یوکرین کے ساتھ روسی برآمدات کو بھی تحففظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔لیکن معاہدے کے اس حصے کی پاس داری نظر نہیں آ رہی ہے۔
روسی برآمدات پر پابندی تکنیکی نوعیت کی ہے۔ ترک بحریہ، بحر اسود کی روسی بندرگاہ نووورسسک Novorossiysk سے غلہ لے کر نکلنے والے جہازوں کو بھی تحفظ فراہم کر رہی ہے لیکن روس کو اپنے اناج کے خریدار تلاش کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ بظاہر روسی برآمدات پر کوئی قدغن نہیں ہے لیکن امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روسی غلے کے خریداروں کے لیے امریکی ڈالر میں ضمانت نامہ ادائیگی (LC) کھولنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔
معاہدہ گندم کی تجدید سے انکار کے بعد روسی فضائیہ نے اوڈیسا بندرگاہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جمعہ اکیس جولائی کو بندرگاہ کے ارد گرد غلے کے گوداموں پر میزائیلوں کی بارش سے ایک سو دس ٹن مٹر جل کر خاک ہوگئے۔ میزائیل حملے میں کرینوں اور جہازوں پر سامان لادنے والے اوزار اور مشینوں کو بھاری نقصان پہنچا۔ روس کے نائب وزیر خارجہ Sergei Vershinin نے ان حملوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ روسی وزارت دفاع یوکرینی بندرگاہوں اور اس سے متصل پانیوں کو عسکری ہدف قراردے چکی ہے اور خطرے کے خاتمے تک حملے جاری رہیں گے۔
معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر ترک صدر ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو بحیرہ اسود میں اناج راہداری کی بحالی کے لیے روس کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ جناب ایردوان کے مطابق روس کو امتیازی سلوک کی شکایات اور تحفظات ہیں۔ اگر انہیں دور کر دیا جائے تو روس بحر اسود کی اناج راہداری فعال کرنےکے حق میں ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ مغربی ممالک کو اس معاملے پر مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ طیب ایردوان نے اپنے روسی ہم منصب کو اگلے ماہ ترکیہ آنے کی دعوت دی ہے اور وہ اسی ہفتے صدر پوتن سے فون پر بات بھی کریں گے۔
دنیا کو فاقہ کشی کے عذاب سے بچانے کے لیے جناب ایردوان کی کوششیں قابل تعریف تو ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ اس کے لیے امریکہ اور یورپ کو اپنا متکبرانہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ مغرب کی لگائی ہوئی پابندیوں نے روسی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ صدر پوتن جناب ایردوان کو قابل اعتماد اور منصف مزاج مصالحت کار سمجھتے ہیں لیکن روسی غلے کی ترسیل پر پابندی ہٹائے بغیر روس کو معقولیت کی طرف مائل کرنا جناب ایردوان کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس تنازعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انا اور مغرب کے خبطِ عظمت کی قیمت ایشیا اور افریقہ کے بھوکے عوام ادا کر رہے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
یوکرینی غلے کی فراہمی رکنے سے قرنِ افریقہ (Horn of Africa) کے ممالک خاص طور سے صومالیہ بری طرح متاثر ہوگا جس کا بڑا علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ اس ملک میں گزشتہ سال غذائی قلت سے چالیس ہزار اموات ہوئیں جن میں اکثریت ننھے بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ یمن، مصر، لبنان اور شام کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023