
ڈاکٹر شکیل احمد خان
پرنسپل آرٹس کالج۔ جالنہ، مہاراشٹر
جب مچھیرے سمندر میں نہ جا سکیں تو جال درست کرتے ہیں
1965 کے موسمِ سرما کی ایک برساتی رات ہے۔ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاوٗن سے سات کلو میٹر دور سمندر کی طوفانی لہروں کے درمیان کھڑے جزیرہ روبن پر بنے ہوئے قید خانے پر سکوت طاری ہے۔ 7×8 فٹ کی ایک سیلن زدہ چھوٹی سی کوٹھڑی میں ایک قیدی نہایت استغراق سے کچھ پڑھنے میں مصروف ہے۔ اس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہیں کیونکہ دن بھر سفید چونے کی پہاڑیوں میں سورج کی تیز روشنی میں بغیر سیاہ چشمہ کے کھدائی کرنے سے اس کی بصارت متاثر ہو رہی ہے۔ اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے لیکن وہ رات کو آرام کے لیے ملنے والے مختصر وقفہ میں یونیورسٹی آف لندن سے فاصلاتی کورس کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پڑھائی کر رہا ہے۔ ہے نا مضحکہ خیز بات! یقیناً عام انسانوں کو یہ بات مضحکہ خیز ہی لگے گی، لیکن وہ کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ وہ ایک Visionaryتھا جو آگے چل کر بیسویں صدی کے اہم افراد میں شمار ہوا۔ آج دنیا اسے نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے۔ اس کے ویژن میں جو بصیرت پوشیدہ تھی اس میں من حیث القوم ہمارے لیے بڑا سبق اور دانش موجود ہے۔ نیلسن منڈیلانے 27 سال قید میں ناقابلِ تصور مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے انہوں نے مستقبل کی تیاری کا انتخاب کیا۔ وہ کتابوں میں غوطہ زن رہے، قیدی ساتھیوں کے ساتھ گہرے مباحثے کیے، نیگرو بلیک لوگوں کی مساوات کے لیے جدو جہد پر گہرائی سے غور کیا۔ انہوں نے سمجھا کہ اگرچہ کہ اس وقت وہ حالات کو بدل نہیں سکتے، حالات میں تبدیلی نہیں لا سکتے، لیکن کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اس وقت کے لیے خود کو تیار کر سکیں جب وہ حالات کو بدل سکیں گے یا حالات بدل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ رہا کیے گئے اور ملک کے صدر بنائے گئے تو وہ ایک کمزور اور گنوار شخص نہیں تھے بلکہ درکار علوم اور بصیرت سے مزین ایک بالغ النظر اور تربیت یافتہ قابل فرد تھے۔ قید کے دوران وہ جانتے تھے کہ آزادی اور مساوات تو ایک نہ ایک دن ملنا ہی ہے۔ لہٰذا اگر اس وقت وہ مجبور اور مقید ہیں، راست مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ آنے والے وقت کے لیے خود کو بہتر بناتے رہیں۔ اگر نیلسن منڈیلا قید کے دوران قانون، زبان دانی اور بین الا قوامی سیاست کی باریکیوں سے واقفیت حاصل نہیں کرتے تو بعد ازاں وہ اپنی برادری اور ملک کی سربراہی نہیں کر پاتے۔ یعنی وہ جانتے تھے کہ کسی وقت کسی وجہ سے اگر آپ عملی جد و جہد سے قاصر ہیں تو اس عرصے میں خود کو بہتر، قابل اور طاقتور بناتے رہنا بھی جد و جہد میں ہی شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ ویژن و بصیرت ہے جسے ایرانی نژاد نیوزی لینڈر نبیل سابیو آزادی نامی فنکار اور مصنف نے اپنے ایک قول میں آفاقیت کا جامہ پہنا دیا ہے کہWhen fishermen can not go to sea, they repair their nets یعنی کبھی کبھی برسات کے مہینوں میں یا جب سمندر میں طوفان آیا ہوا ہو تو مچھیرے مچھلیاں پکڑنے سمندر میں نہیں جا سکتے لیکن ان دنوں مچھیرے طوفان تھمنے کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے نہیں رہتے بلکہ اپنے جال درست کرتے رہتے ہیں، اپنی کشتیاں مضبوط کرتے رہتے ہیں تاکہ جب وہ دوبارہ سمندر میں جائیں تو بہتر طور پر مچھلیاں پکڑ سکیں۔ موجودہ سیاسی و سماجی منظر نامے میں اس ویژن کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ فی زمانہ بھی نا انصافیوں کا مینہ خوب برس رہا ہے۔ سیاسی و سماجی زندگی کے سمندر شدید طوفانوں کی زد میں ہیں۔ ( اِس کے لیے کون کتنا ذمہ دار ہے یہ ایک الگ موضوع ہے) تو اس وقت ہماری کشتی کے جو سیاسی، مذہبی اور قانونی ناخدا ہیں وہ تو اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہی ہیں۔ انہیں تو بہر حال لگے ہی رہنا ہے۔ جیسے بھی ہو، جتنا بھی بن پڑ رہا ہو کشتی کو کنارے پر لانے کے لیے عملی جد و جہد کرتے ہی رہنا ہے۔ لیکن لاکھوں کرڑوں عام لوگ جو معاشی مجبوریوں کے باعث اس وقت عملی جد و جہد میں حصہ لینے سے خود کو قاصر پا رہے ہیں، بالفاظ دیگر سمندر میں نہیں جا پا رہے ہیں، انہیں کم از کم اپنے جال تو درست کرتے رہنا چاہیے، خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے رہنا چاہیے۔ ہر صبح اخبار پڑھ کر ہائے توبہ کرنے، واٹس ایپ پر دھڑا دھڑ ویڈیوز شیئر کرنے، خود مایوس ہونے اور معاشرے میں مایوسی پھیلانے سے اچھا ہے کہ خود کو تعلیمی، جسمانی، جذباتی، معاشی اور اخلاقی طور پر مضبوط و بہتر بنانے میں مصروف رہیں تاکہ جب کبھی حالات بدلیں تو ہم ان سے مستفید ہونے کے اہل تو ہوں۔ مثلاً فرض کیجیے کہ ہمیں پانچ یا دس فیصد ریزرویشن منظور ہو جائے تو کیا ہمارے پاس اتنی تعداد میں IAS یا IPS جیسے افسر بننے کے قابل نوجوان موجود ہوں گے؟ یقیناً نہیں ہوں گے۔ کیونکہ آج یہ باتیں ہمیں دیوانے کا خواب محسوس ہوتی ہیں، غیر یقینی معلوم ہوتی ہیں۔اتنی ہی غیر یقینی جتنی نیلسن منڈیلا کی قید کے دوران یہ تصور کرنا کہ وہ کبھی آزاد ہوں گے اور ملک کے صدر بنیں گے۔ ویسے بھی خواب تو دیوانوں کے ہی پورے ہوتے ہیں، ان دیوانوں کے جو ہر حال میں پر عزم رہتے ہیں، پر امید رہتے ہیں اور مستقبل کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ سقوطِ حیدر آباد کے بعد مہاراشٹر اور تلنگانہ میں عدالتوں میں، پولیس میں، مالیات میں بیشتر اعلی عہدوں پر برادرانِ وطن کے افراد براجمان ہوئے۔کیونکہ ان کے پاس عثمانیہ یونیورسٹی سے فارغ قابل نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یعنی وہ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار تھے، قابل تھے۔ لہٰذا آپ جس حد تک سمندر میں جا سکتے ہیں جائیے ورنہ اپنے جالوں اور کشتیوں کو درست کرتے رہیے۔ اہلیت اور قابلیت بڑھاتے رہیے۔ صحت مند، صالح اور ذہین افراد ہمارے ان رہنماؤں کے لیے بھی قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے جو عملی جد و جہد میں لگے ہیں۔ مدقوق، نشہ باز، بیمار، غبی و احمق، جاہل، بے علم و بے ہنر، بد اخلاق و بد تہذیب لوگوں کی بھیڑ ہمارے رہنماؤں کی کوششوں کو بھی کئی گنا دشوار بنا دیتی ہے۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت، صحت پر خاص توجہ دیجے، پر سکون رہیے، میڈیٹیشن کیجیے۔ آپس میں دست و گریباں ہونا چھوڑیے، کوئی نہ کوئی ہنر سیکھتے رہیے، اخبارات اور کتابیں پڑھنے کا مزاج بنائیے، اچھی زبان اور اچھے الفاظ استعمال کرنا سیکھیے، فضول باتوں میں وقت قطعی برباد نہ کریں، گھریلو زندگی میں بد سلیقگی اور پھوہڑ پن کو داخل نہ ہونے دیں، دانشمندی سے اپنے مالی (فائنانشل) معاملات کی منصوبہ بندی کیجیے، بے دریغ خرچ مت کیجیے، صرف ضرورت کی چیزیں خریدیے، باقی رقم کی بچت کیجیے اور سرمایہ کاری کیجیے۔ یاد رکھیے، آپ کی صحت بہتر ہو گی تو قوم کی صحت بہتر ہو گی، آپ کی معیشت بہتر ہو گی تو قوم کی معیشت بہتر ہوگی، کیونکہ قوم افراد سے بنتی ہے۔ یہ سب کرنا ایک طرح سے اپنے جالوں اور کشتیوں کو درست کرنے کے مترادف ہے۔ آپ سمندر میں نہیں جا سکتے اور یہ کام بھی نہیں کر رہے ہیں تو پھر آپ کو واٹس ایپ پر مذہبی و ملی استحصال کی ویڈیوز شیئر کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ یہ خود کا اور دوسروں کا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔ ان محاذوں پر لاپروائی سے ہماری آدھی انرجی برباد ہو رہی ہے، ہم اندر سے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کچھ کہنے کا یارا ہم میں بھی نہیں ہے کیونکہ بقول اسلم
اب ذکرِ خوئے یار سرِ عام کیا کریں
آئیں گے اپنے سر پہ بھی الزام کیا کریں
(مضمون نگار سے رابطہ: 8308219804 )
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025