خبرونظر
پرواز رحمانی
اقلیتوں کی یہ ’’سورگ‘‘
کیا اقلیتوں کے لیے بھارت سورگ ہے؟ کم از کم حکمراں پارٹی کے لوگ تو یہی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سال کے دوران نریندر مودی اور امیت شاہ کئی مواقع پر یہ بات کہہ چکے ہیں۔ اب پھر یہی بات دہرائی گئی ہے جس پر اسدالدین اویسی کو طیش آگیا اور ٹویٹر پر تیز و تند بیان جاری کیا۔ بی جے پی والے جب اقلیتوں کے لیے بھارت کو سورگ بتاتے ہیں تو کوئی دلیل نہیں دیتے، کسی موقع پر نہیں دی۔ در اصل پارٹی کی یہ بات اس قدر بھونڈی اور مضحکہ خیز ہے کہ لوگ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے وہ مبصر بھی جو حکمراں پارٹی پر جابجا تنقید کرتے ہیں، اس مضحکہ خیزی کا نوٹس نہیں لیتے۔ ٹال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی بے وقعت بات کون سنے گا اور کیوں اُس پر تبصرہ کرے گا لیکن ایک جھوٹ اگر بار بار دہرایا جائے تو اس پر غصہ آہی جاتا ہے۔ اویسی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اپنے ٹویٹر پر انہوں نے کہا کہ ’’آج جین برادری کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں، عیسائیوں پر حملے ہو رہے ہیں، سکھ برادری کے نوجوانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، ہزاروں مسلمانوں کو آسام اور اتراکھنڈ میں بے گھر کر دیا گیا ہے۔
فہرست لمبی
مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ لداخ میں بدھ مت کے لوگ اور شیعہ مسلمان سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور مکمل ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اِسی دوران تین جنوری کو جین برادری کے ایک وفد نے مجلس کے ہیڈ کوارٹرس میں مسٹر اویسی سے ملاقات کی تھی اور اپنے کاز کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ جین فرقے کے دونوں گروپ قانونی طور پر ایک ہیں اور ہندو مت سے الگ ہیں۔ حکومت بھی تسلیم کرتی ہے۔ گرو نانک کا قائم کردہ سکھ مت بھی ہندومت سے علیحدہ ہے مگر کچھ ہندو فرقے اسے بھی ہندومت کا حصہ بتاتے ہیں جس پر سکھ لیڈر تنقید کرتے ہیں۔ ایک بار آر ایس ایس سر سنگھ چالک نے پنجاب میں بیان دیا تھا کہ سکھوں کی پوتر کتاب گرو گرنتھ صاحب کو مندروں میں رکھا جائے گا۔ اس پر تمام سکھ سخت ناراض ہو گئے تھے اور اس بیان کی مذمت کی تھی اور کہا تھا گروہ گرنتھ صاحب ایک واہے گروہ کو ماننے والی کتاب ہے، اسے ہزاروں دیوی دیوتاؤں والے مندروں میں کیسے رکھا جاسکتا ہے۔ یہ اس کی سخت توہین ہے ہم یہ ہونے نہیں دیں گے۔
کیا بحث ہونی چاہیے؟
در اصل ہندوستانی عوام وخواص دھرم یا مذہب کے بارے میں سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ دوسرے مذاہب کے سلسلے میں تو وہ بالکل ہی غیر سنجیدہ ہیں، اس لیے دھرم، مذہب یا ریلیجن پر بات کرنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ وہ دین اسلامی کی بھی دیگر مذاہب یا دھرموں کی طرح بات کرتے ہیں۔ بی جے پی والے یہ جو کہتے ہیں کہ بھارت ہے اقلیتوں کے لیے سورگ ہے تو اپنی سمجھ کی سطح کے مطابق درست کہتے ہیں۔ ان کی سمجھ کی سطح یہی ہے۔ یہاں اقلیتوں ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے جس کا مختصر ذکر مجلس کے سربراہ نے کیا ہے۔ اسے ہندو مت کے لوگ خوش گوار ماحول سمجھتے ہیں۔ وہ تو دلتوں کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ بھارت ان کی بہترین پناہ گاہ ہے یعنی وہ دلت جو مذہباً اچھی طرح رہ نہیں سکتے، اچھا کھا نہیں سکتے اچھا پہن نہیں سکتے، جنہیں ورن ویوستھا میں سب سے نیچے رکھا گیا ہے۔ انہیں بہترین پناہ گاہ نصیب ہے۔ اگر آزاد سوشل میڈیا والے ان سورگ واشیوں پر مباحث شروع کریں تو بہت اچھا ہو گا۔ مسلمانوں کو تو اس بیکار کی بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ بے جی پی والے اسے دنگا فساد کی وجہ بنا سکتے ہیں کیوں کہ اس بحث سے بہت کچھ حقائق سامنے آئیں گے۔