خبرونظر
پرواز رحمانی
یکساں سول کوڈ؟
شادی، بیاہ، وراثت اور بچہ گود لینے جیسی روایات ملک میں ہمیشہ زیر بحث رہیں۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ یہ قوانین تمام شہریوں کے لیے یکساں ہونے چاہئیں جب کہ چھوٹے بڑے مذہبی طبقات اس کے خلاف ہیں۔ ہر مذہب کے اپنے عائلی قوانین ہیں اور وہ بہت سختی کے ساتھ ان پر عمل کرتے ہیں۔ ہندو دھرم یہاں کا سب سے بڑا دھرم کہلاتا ہے مگر اس کے ماننے والوں میں کوئی یکساں سول کوڈ نہیں ہے، اس لیے اس کے ماننے والوں کو اس کی پروا بھی نہیں ہے۔ پوچھنے پر وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہاں یکساں سول کوڈ بننا چاہیے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس دھرم کے ماننے وال یا یوں کہا جائے کہ ہندو دھرم کے افراد اپنے دھرم کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس دھرم کی کوئی گرنتھ (کتاب) بھی نہیں ہے۔ شاید اسی لیے ایک بار این سی ای آر ٹی کے انگلش میگزین میں یہ پروپیگنڈا چلایا گیا کہ جو مذاہب کسی ایک گرنتھ (کتاب) پر قائم ہیں وہ مذاہب نہیں، مذاہب وہ ہیں جو مختلف کتابوں اور متعدد دیوی دیوتاوں کی پرستش اور تعلیمات پر قائم ہیں۔ اس پر کتاب والے مذاہب نے سخت تنقید کی تھی اور اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اس کے خلاف دلائل کا انبار لگا دیا تھا۔ اس پر خاصی بحث ہوئی تھی۔
بحث پہلے بھی ہوئی تھی
یکساں سول کوڈ پر تبادلہ خیال دستور کی منظوری سے پہلے بھی ہوا تھا جب اس کے رہنما اصولوں کی فہرست میں دفعہ 44 کو شامل کیا گیا تھا۔ اس دفعہ کے تحت مملکت تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی پابند ہو گی۔ بس اسی کو بنیاد بنا کر سول کوڈ کے حامی افراد کامن سول کوڈ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے اس وقت بھی یہ معاملہ اٹھایا تھا لیکن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور دوسرے دستور سازوں نے مسلمانوں کو کسی طرح خاموش کر دیا تھا۔ دستور کے نفاذ کے بعد آر ایس ایس یہ مسئلہ کسی نہ کسی رنگ میں برابر اٹھاتی رہی ہے، لیکن ابتدا میں اس کا رخ زیادہ متشدد نہیں ہوا کرتا تھا اس لیے کہ اس نے اس کی ضرورت اور مقصد بیان نہیں کیا تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، سنگھ کے مقاصد بھی سامنے آنے لگے۔ اب پندرہ بیس سال سے سنگھ جو کچھ کہہ اور کر رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پورے ملک میں اس کا نفاذ چاہتا ہے۔ اس کی دو ریاستوں میں اس کی تحریک بھی ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے اندر اس پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا اقدام سکھ مت کے ذمے داروں نے کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی اور اہم تنظیم شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کر کے کہا ہے کہ یہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ ہے۔
سب مل کر کوشش کریں
9 نومبر کو شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ یکساں سول کوڈ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ ہے۔ کمیٹی نے اس کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ ’’یہ کوڈ ملک میں کسی صورت میں نافذ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ کمیٹی نے اس سلسلے میں ایک قرارداد بھی منظور کی اور کہا کہ ’’یہ مذہبی اقلیتوں کو دبانے کی کوشش ہے‘‘۔ سکھ برادری کی طرح مسلمان اور عیسائی وغیرہ بھی یونیفارم سول کوڈ کے مخالف ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمیعۃ علما ہند اور دیگر مسلم ملی جماعتیں یکساں سول کوڈ کی پہلے سے مخالف ہیں۔ یہ جماعتیں قراردادیں بھی منظور کر چکی ہیں، بیانات بھی دیتی رہتی ہیں۔ کئی سکھ لیڈروں نے بھی ماضی میں کئی بیانات دیے ہیں مگر یہ شاید پہلا موقع ہے کہ شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کی ہے۔ بہت اچھا ہو گا اگر مذہبی اقلیتوں کی یہ جماعتیں متحدہ طور پر ایک بیان جاری کریں جس کی روح وہی ہو جو پربندھک کمیٹی کی قرارداد میں موجود ہے۔ یہ بات کہ یونیفارم سول کوڈ دراصل ہندو راشٹرا کے قیام کا منصوبہ ہے جسے ملک کی سبھی اقلیتیں محسوس کرتی ہیں۔ اب جبکہ سنگھ کا منصوبہ واضح ہو رہا ہے، اقلیتوں کو اپنی مزاحمتی کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔