خبرونظر

پرواز رحمانی

میڈیا کا رول
مین اسٹریم میڈیا، جسے بہت سے لوگ گودی میڈیا اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ صرف حکومت کے گیت گاتا رہتا ہے، اپنا کام لگاتار کیے جا رہا ہے۔ جبکہ حکومت اور حکمراں پارٹی کے مخالف میڈیا کی کمان سوشل میڈیا نے سنبھال رکھی ہے۔ اس کی ہر بات کی خبر مثبت یا منفی پرائیویٹ چینلوں پر آجاتی ہے۔ اس میں حصہ لینے والے بھی خوب کھل کر بولتے ہیں۔ پابندی یا گرفتاری کی پروا نہیں کرتے۔ اکثر اوقات ایسے انکشافات کرتے ہیں کہ حکمراں ٹولہ تلملا کر رہ جاتا ہو گا۔ آج کل مسلم شہریوں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی آیا ہوا ہے۔ طوفان برپا کرنے والے کون لوگ ہیں سبھی جانتے ہیں۔ کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب کا مسئلہ پہلے سے گرم تھا اب شر پسندوں نے اسے دوبارہ زندہ کرنا چاہا ہے۔ اس کے ساتھ بی جے پی کے ایک لیڈر نے ٹیپو سلطان اور مسلمانوں کا معاملہ پھر اٹھایا ہے۔ ایک پرانی سادھوی پراچی نے غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانا شروع کر دیا ہے۔ اس نے ایک جلسہ عام میں للکارا ہے کہ کسی کے گھر میں کسی خان کی تصویر پائی جائے تو اسے فورا نکال کر پھینک دیا جائے۔ ادھر ہریانہ میں جنید اور ناصر کے بہیمانہ قتل کا واقعہ مسلمانوں اور سمجھ دار غیر مسلموں میں غم و غصہ کا سبب بنا ہوا ہے۔

تبصرے جاری ہیں
اِس طوفانِ بد تمیزی کے خلاف سوشل میڈیا پر تبصرے برابر آرہے ہیں۔ ایک چینل پر تمام پانچ شرکاء اس امر پر متفق تھے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ آر ایس ایس اور اس کی مرکزی حکومت کی ایماء پر ہو رہا ہے۔ سنگھ کا یہ بہت قدیم اور منجھا ہوا طریقہ ہے۔ اس نے اپنی ذیلی تنظیوں اور سنگھٹنوں میں کام بانٹ رکھے ہیں۔ بہت سے کاموں میں سنگھ خود سامنے نہیں آتا۔ ایک طرف وزیر اعظم اپنے آدمیوں کو مسلمانوں کے خلاف بولنے سے علانیہ روکتے ہیں تو دوسری جانب اپنے چرب زبانوں کو بولنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ یہ شرکاء اس خیال پر بھی متفق تھے کہ آر ایس ایس یا بی جے پی کے پاس برسر اقتدار رہنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنا رہے۔ کوئی شریفانہ یا مثبت طریقہ اس کے پاس ہے ہی نہیں۔ 2014 کے عام انتخابات سے قبل جو لوگ بی جے پی کے خلاف سمجھے جاتے تھے، انتخابات کے بعد وہ بھی بدل گئے ہیں۔ اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کے خلاف پارٹی کے حربے بہت طاقتور اور کامیاب ہیں۔ ان میں بہت سے حربے درآمد شدہ ہیں باہر سے سیکھے گئے ہیں۔

دانش ور آگے آئیں
مبصرین اس صورتحال پر غور کرکے اس کا علاج بھی ڈھونڈتے ہیں۔ مبصرین کا عام خیال ہے کہ سیاسی لوگ اور سیاسی پارٹیاں یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتیں بلکہ مزید بگاڑ دیتی ہیں، بہت سوں کی رائے تو یہ ہے کہ نفرت اور لڑائی جھگڑے کا یہ مسئلہ تو پیدا ہی سیاسی لوگوں نے کیا ہے۔ اس لیے اب دانش وروں، اہل علم اور سنجیدہ لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔ ایک چینل پر ایک خاتون مبصر مینو جین نے یہ بات زیادہ سلیقہ کے ساتھ زور دے کر کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک غیر سیاسی پڑھے لکھے دانش ور حرکت میں نہیں آئیں گے، صورتحال نہیں بدلے گی۔ راہل گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا میں ایک بڑی کوشش ضرور کی ہے، انہیں عوام کی حمایت بھی ملی ہے لیکن بہت سے اپوزیشن لیڈر اب بھی اپنا سیاسی فائدہ اور نقصان دیکھ رہے ہیں۔ جب تک جے پرکاش نارائن اور انا ہزارے جیسے لوگ نہیں اٹھیں گے بات نہیں بنے گی۔ دلت لیڈروں، پسماندہ طبقوں اور آدی باسیوں کا سامنے آنا بھی ضروری ہے۔ مسلمان لیڈ نہیں کر سکتے نہ انہیں کرنا چاہیے۔ وہ کام کرنے والوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک طاقت ہے اس پر پورے شد و مد کے ساتھ اپنی بات رکھنی چاہیے۔