خبرونظر

پرواز رحمانی

رام چرترمانس پر بحث
آر ایس ایس کے لیڈر موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ اونچ نیچ کا حساب بھگوان نے نہیں، انسانوں نے اپنی سہولت کے لیے بنایا ہے۔ انہوں نے ناگپور میں سنت تلسی داس دوبے پر ایک پروگرام کے دوران یہ بات کہی۔ تلسی داس کی مشہور کتاب ’’رام چرترمانس‘‘ پہلے ہی سے تنازع کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اس میں تلسی داس نے لکھا ہے کہ ان جاتیوں کے علاوه جو ہندو دھرم میں موجود ہیں، تمام جاتیوں اور تمام دھرموں کی عورتیں نچلی جاتیاں ہیں اور ڈنڈکی ادھیکاری ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھاگوت نے اسی کے جواب میں یہ بات کہی ہے۔ جس کا مفہوم بعض مبصرین یہ اخذ کر رہے ہیں کہ بھاگوت ہندو دھرم کا ایک بنیادی عقیدہ بدلنا چاہتے ہیں یعنی ہندو دھرم سے ورن ویوستھا یعنی جاتیوں کو ختم کرکے سب کو ایک عقیدہ میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ برہمن اس بیان کا خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن کچھ برہمن اس کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔

موہن بھاگوت کے بیان پر شبہات
نچلی جاتیاں، او بی سی، بہوجن سماج، آدی باسی اور ان کی خواتین اس بیان کا خیر مقدم کر رہی ہیں لیکن ان کے بہت سے لوگ شکوک و شبہات بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں سنگھ کی ضرور کوئی چال ہے۔ اسی دوران بہوجن سماج کے لوگوں کی جانب سے رام چرترمانس اور منوسمرتی پر تنقیصی بحث برابر ہو رہی ہے۔ ادھر بھاگوت نے بھی اپنے بیان کی وضاحت کی ہے۔ کہا کہ میں نے برہمن کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ میں نے پنڈت کہا ہے اور پنڈت ہونے کے لیے برہمن ہونا ضروری نہیں ہے۔ پنڈت کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بہت سے برہمن ،بھاگوت کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ بہت سے برہمنوں کو موہن بھاگوت کے اصل بیان سے بھی اتفاق نہیں ہے۔ سنگھ نے ایک تیسری قسم بتائی ہے۔ جاتیاں گیانیوں اور ودوانوں نے بنائی ہیں، بھاگوت نے پنڈت انہی لوگوں کو کہا ہے۔ ادھر بھاگوت اور سنگھ کے خلاف پروین توگڑیا کا گروپ بھی اتر گیا ہے۔

فریقین کون ہیں
پروین توگڑیا، سنگھ کی بنائی ہوئی وشوہندو پریشد کے فائر فرنٹ لیڈر تھے۔ مگر بعد میں جانے کیا ہوا کہ وہ اس سے الگ ہوگئے یا کر دیے گئے۔ پہلے توگڑیا اور مودی میں بھی بڑی گہری دوستی تھی۔ مگر اب تو گڑیا پی ایم مودی کے شدید مخالف ہیں۔ موجودہ چرترمانس تنازع میں وہ کہتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس کا ایک کھیل ہے۔ بھاگوت برہمنوں اور اپر کاسٹ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ سناتن دھرم کے بنیادی تمام عقائدہ توڑ دینا چاہتے ہیں۔ لڑاتی بہت زور دار ہے۔ عام آدمیوں کے لیے یہ سمجھنا ہی بہت مشکل ہے کہ لڑائی ہے کیا۔ بظاہر یہ لڑائی برہمنوں اور نچلی جاتیوں کے مابین سمجھی جارہی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بھی ملوث ہیں۔ سماجی برتری کی قدیم جنگ بھی ہے۔ ہندوؤں اور غیر ہندوؤں کی روایتی کشمکش بھی ہے۔ بھارت ماتا اور وندے ماترم بھی ہے۔ اب یہ لڑائی کیا ٹرن لے گی، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کون جیتے گا کون ہارے گا؟ فی الحال کچھ نہیں کہا سکتا۔ جھگڑے کے فریقین کون ہیں یہ بھی نہیں معلوم۔