خبرونظر

پرواز رحمانی

سیاسی انداز کی تبدیلی

جب سے ہندوستانی سیاست کے انداز و اطوار بدلے ہیں، انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہندو-مسلم کی گردان شروع ہوگئی ہے۔ حکم راں پارٹی اور اس کے ہم نوا بات بات پر ہندو-مسلم کرتے ہیں۔ تہواروں پر بطور خاص یہ شرارت کی جاتی ہے۔ اس شرارت میں اب انتظامیہ کے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ سی بی آئی، الیکشن کمیشن، محکمہ پولیس تو اس میں پہلے ہی سے ملوث ہے۔ اب سرکاری افسر بھی بولنے لگے ہیں۔ یو پی کے شہر سنبھل میں کچھ شر پسندوں نے ایک قدیم مسجد کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ اس پر آئے دن بیان بازی ہوتی ہے۔ حال ہی میں سنبھل کے سی او نے ایک بیان میں کہا کہ ایک سال میں جمعہ کا دن 52 مرتبہ آتا ہے جبکہ ہولی صرف ایک بار آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات شر انگیزی کی نیت سے کہی گئی ہے اور گمراہ کن ہے۔ جمعہ کی نماز میں اہل ایمان کثرت سے شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے بڑے شہروں میں مسجدیں بھر جاتی ہیں اور بعض مساجد میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو مسجد سے باہر صفیں بنانی پڑتی ہیں۔ یہ عمل ڈیڑھ گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ اس دوران بازار سنسان رہتے ہیں، دیگر لوگوں کو آنے جانے یا کام کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہاں بعض مساجد کے سامنے نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے آنے جانے والوں کو قدرے دقت ہوتی ہے اس لیے مساجد کی انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو پریشانی نہ ہو، ان کے لیے راستہ چھوڑا جاتا ہے۔ ویسے دہلی میں دیکھا گیا ہے کہ آمد و رفت کرنے والے لوگ جو بالعموم غیر مسلم ہوتے ہیں، خود ہی دونوں طرف رک جاتے ہیں۔ پہلے تو یہ عمل بہت آسان اور پرامن تھا لیکن گزشتہ دس بارہ سال سے شرپسندوں نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔ بعض مقامات پر شرارتاً آرتیاں اتاری جاتی ہیں یا کوئی پوجا پاٹ کی جاتی ہے۔ یہ شرارت ممبئی میں شروع ہوگئی ہے۔ چند سال قبل ایک لیڈر نے بیان دیا تھا کہ اگر مساجد کے سامنے بھیڑ جمع ہوئی تو ہم ہنومان چالیسا کا پاٹھ کریں گے۔ تاہم شریف لوگوں کی اکثریت نے اسے پر توجہ نہیں دی۔

یہ تہوار

سنبھل کے سی او کے بیان پر اپوزیشن لیڈروں نے سخت تنقید کی اور اسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔ سہارنپور کے ایم پی عمران مسعود نے کہا کہ آئینی عہدوں پر فائز افسروں کو یہ زبان زیب نہیں دیتی۔ یہ لوگوں کے اندر انتشار و بے چینی پیدا کرنے والی زبان ہے۔ سرکاری افسروں کو عوام میں میل میلاپ اور یک جہتی پیدا کرنے والی زبان استعمال کرنی چاہیے۔ سی او انوج چودھری نے جمعہ کی نماز کا موازنہ ہولی سے کیا ہے اور ہولی کو ایک دن کا تہوار بتایا ہے، جبکہ ہولی کئی دنوں کا تہوار ہے۔ ہولی کے دن سے کئی دن بلکہ کئی ہفتے پہلے خوب شور شرابہ اور دھینگا مشتی ہوتی ہے۔ رنگ پھینکنے میں عورتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر پتھر اور کوڑا کباڑ تک پھینکا جاتا ہے۔ چلتی ٹرینوں اور بسوں پر پتھراو کیا جاتا ہے۔ راہ چلتے راہ گیروں پر بھی رنگ ڈالا جاتا ہے۔ عورتوں و مردوں کے مابین بے ہودہ مذاق کیا جاتا ہے۔ اس ہنگامے میں بعض اوقات جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ سناتن دھرم میں چار ذاتوں کے لیے چار تہوار ہیں۔ راکھی (رکشا بندھن) برہمنوں کے لیے مخصوص ہے۔ رام لیلا اپر کاسٹ ٹھاکروں کا تہوار ہے۔ دیوالی بنیوں یعنی ویش برادری کا تہوار ہے اور ہولی پچھڑی اور نچلی ذاتیں مناتی ہیں۔ ویسے کہنے کو یہ سبھی ذاتوں کے تہوار میں، سبھی ذاتیں مناتی ہیں۔ سنبھل کے سی انوج چودھری نے ایک مخصوص تہوار کا حوالہ دیا ہے حالانکہ ہر تہوار سال میں ایک ہی بار آتا ہے۔ جمعہ کی نماز میں کیا ہوتا ہے۔ با جماعت نماز صرف دو رکعت ہے جس میں چھ سات منٹ لگتے ہیں، اس کے بعد راستے صاف ہو جاتے ہیں۔ باقی نماز کے لیے لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں یا مسجد کے اندر ہی پڑھتے ہیں۔ کوئی شور شرابہ نہیں ہوتا کوئی غل غپاڑہ نہیں ہوتا۔ مائک بھی صرف نماز با جماعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جمعہ کے خطبے میں بھی مائک استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی۔ نہ راستہ روکا جاتا ہے۔ اسلام کی تمام عبادات خاموشی کے ساتھ ہوتی ہیں۔

حکم راں پارٹی پرانے انداز میں

سرکاری افسر کے نا زیبا بیان پر سوشل میڈیا میں بحث ہنوز جاری ہے۔ اکثر اسے غیر ضروری اور نا مناسب ریمارکس قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ سنگھ گزیدہ لوگ اسے درست بتا رہے ہیں۔ اور یہی سنگھ کی اصل بنیاد ہے۔ یہ عمل گزشتہ سو سال سے جاری ہے۔ اس دوران سنجیدہ اور تعمیری سیاست کے بہت تجربات کیے گئے لیکن کامیابی نہیں ملی۔ پارٹیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بھی کئی تجربات کیے۔ ایمرجنسی کے خلاف ہونے والے انتخابات میں مرارجی دیسائی کے بعد چودھری چرن سنگھ وزیر اعظم بنے تھے۔ اس میں بھارتیہ جن سنگھ بھی تھا، چرن سنگھ سرکار کے کچھ وزیروں نے پارٹی میں دہری ممبر شپ کا سوال اٹھایا۔ ان لوگوں کو جن سنگھ پر اعتراض تھا۔ جن سنگھ کے ممبر آر ایس ایس کے بھی ممبر تھے۔ سب سے پہلے خود چودھری چرن سنگھ نے اس پر سوال اٹھایا۔ بالآخر یہ سرکار ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد مختلف حکومتیں بنتی رہیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جن سنگھ نے چودھری چرن سنگھ کی پارٹی ڈی ایم اے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا۔ ڈی ایم کے پی کا پورا نام تھا، دلت ، مسلم، کسان پارٹی لیکن یہ پارٹی بھی چل نہیں چکی۔ اس کے بعد بھی بی جے پی نے کئی تجربات کیے مگر ناکام رہی۔ اب وقت یہ آگیا ہے کہ پارٹی نئی نئی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرتی ہے پھر انہیں برباد کر دیتی ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو دبانے اور کمزور طبقات کو کچلنے کا کام بھی عروج پر ہے۔ سرکاری ایجنسیوں اور افسروں سے کام لینے میں بھی اسے شہرت حاصل ہوگئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا یہ طریقہ اور کب تک کامیاب رہتا ہے۔ مسجدوں، مدرسوں، مزاروں اور مسلم گھروں پر بلڈوزر چلانے کی مہارت اس نے یو پی کے بھگوا چیف منسٹر حاصل کرلی ہے۔ سرکاری افسر اسی کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں بہت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں کام بھی کر رہی ہیں لیکن نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں۔ راہل گاندھی، ملکارجن کھرگے، سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی، جے رام رمیش اور دوسرے لیڈر پُر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔