خبرونظر

پرواز رحمانی
لو جہاد کا شور
کوئی دس سال قبل ریاست جھارکھنڈ میں ایک مسلم نوجوان اور ایک ہندو لڑکی کے درمیان قربت ہوگئی۔ یہ قربت بالکل فطری تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کا مذہب اچھی طرح سمجھ کر دوستی کی تھی۔ لیکن شر پسند سیاسی گروہ نے اپنی نئی شر انگیز اصطلاح یا ٹرم ’لو جہاد‘ کا شو ر مچانا شروع کردیا۔ ہندوؤں کے پاس جا جا کر کہنے لگے کہ مسلمان تمہاری لڑکیوں کو لو جہاد میں پھانس کر ان کا استحصال کر رہے ہیں۔ غرض ماحول کو پوری طرح فرقہ وارانہ بنادیا جبکہ وہ لڑکی علانیہ کہتی رہی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس نے دین اسلام کو خوب سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ بہت سے ہندو بھی اس کی حمایت کرنے لگے لیکن شر پسندوں کو تو شر پھیلانا تھا، وہ منصوبہ بند طریقے سے یہ کام کر رہے تھے، انہیں اپنے بڑوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اس قسم کی شرارتیں بڑوں کی طرف سے ہی شروع کی جاتی ہیں جو پیچھے رہ کر کام کرتے ہیں، سامنے نہیں آتے۔ یہ ان کا پرانا ڈھرا ہے۔ اس لیے بات دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ جاتی ہے۔ جھارکھنڈ میں بھی یہی ہوا۔ لہٰذا وہاں دونوں نے کیرالا جانے کا فیصلہ کیا اور پرامن طریقے سے کیرالا پہنچ گئے۔ جھارکھنڈ میں انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ کیرالا میں ضلع الا پوزا کے کیمکولم مقام پر باقاعدہ شادی کرلی۔ شادی کی رسم اسلام اور ہندو دونوں طریقوں کے مطابق انجام دی گئی۔ اس دوران جھارکھنڈ پولیس بھی ایف آئی آر کے ساتھ کیمکولم پہنچ گئی۔ ایف آئی آر لڑکے کے خلاف تھی۔ اس پر الزام ہے کہ وہ لڑکی کہ بھگا کر لے گیا ہے اس نے لڑکی کا اغو کیا ہے۔ لیکن لڑکی نے خود ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ کیرالا میں اس جوڑے کو ہائی کورٹ کی حمایت حاصل ہے۔ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ جوڑے کی پوری طرح حفاظت کی جائے۔ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور ریاستی حکومت اس حکم کی پابندی کر رہی ہے۔
پولیس کا بے جا استعمال
اس لیے جھارکھنڈ پولیس زور و زبردستی نہیں کرسکی، اس نے وہی سوالات دہرائے جو شر پسندوں نے عائد کئے ہیں۔ لڑکی نے صاف صاف اور واضح طور پر بتایا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا۔ وہ اپنی مکمل مرضی سے مسلمان ہوئی ہے۔ اس پر کسی کا دباو نہیں ہے۔ اسلام کے لیے اس کے ساتھ کسی نے زور و زبردستی نہیں کی۔ وہ پوری طرح آزاد اور خود مختار ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ اسے پریشان کر رہے ہیں۔ اس کے اغوا کا پروپگنڈہ غلط ہے۔ کیرالا میں جوڑے کے وکیل ایڈووکیٹ گیا ایس لاتھا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لڑکا انجینئر ہے اور متحدہ عرب امارات میں ملازم ہے۔ امارات میں اس کے متعدد دوست احباب ہیں۔ یہ احباب زیادہ تر کیرالا کے ہیں۔ خیال ہے کہ انہوں نے اسے کیرالا بھیجا ہوگا۔ کیرالا ایک پر امن ریاست ہے۔ وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی بالکل نہیں ہے۔ تینوں بڑے فرقے ہندو، مسلم ، عیسائی مل جل کر رہتے ہیں۔ حکومت بھی سب کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔ خواہ کمیونسٹ حکومت ہو یا کانگریس کی۔ ریاست میں یہی دو پارٹیاں مضبوط ہیں اور باری باری حکومت کرتی ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے یہاں پیر جمانے کے لیے بہت زور لگایا اور اب بھی لگا رہی ہیں لیکن دال نہیں گل رہی ہے۔ کیرالا میں ہندو، مسلم اور عیسائی تینوں تقریباً برابر ہیں۔ تینوں میں باہم محبت ہے۔ میل ملاپ کے ساتھ رہتے ہیں ۔ آزادی کے بعد سے یہاں یہی نقشہ ہے۔ جھارکھنڈ میں شر پسندوں کی سرکار نہیں ہے ہیمنت سورین کی ہے جو ایک سیکولر پارٹی ہے۔ ہیمنت سورین ، شیبو سورین کے بیٹے ہیں جنہوں نے جھارکھنڈ مکتی مورچہ نام سے ایک سیاسی گروپ بنایا تھا۔ برسوں وہاں حکومت کی اب ہیمنت سورین نے اقتدار سنبھالا ہے۔ بی جے پی وہاں بری طرح ہاری ہے۔ اس لیے وہ جلن میں وہاں فتنہ و فساد پھیلارہی ہے۔ جھارکھنڈ کے متذکرہ بالا جوڑے کو بی جے پی نے پریشان کر رکھا ہے۔ وہاں کی پولیس پر بھی اس کے اثرات ہیں۔ لو جہاد اس کا خاص حصہ ہے۔
آر ایس ایس کا سفر
آر ایس ایس طریقہ روز اول سے یہی ہے۔ سو سال قبل اس نے اپر کاسٹ ہندوؤں کو متحد کرنے کا کام شروع کیا تھا لیکن اسی دوران اسے ملکی اقتدار پر قبضے کا خیال آیا اور اس نے بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی قائم کی ۔ اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تھی، اندرا گاندھی کی حکومت نے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔ اس وقت کے ایک بڑے سیاسی لیڈر جے پرکاش نارائن نے ایمرجنسی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھارتیہ جن سنگھ اس کا حصہ بن گیا۔ مسٹر نارائن کی قیادت میں ایمرجنسی کا خاتمہ ہوا اندرا گاندھی نے عام انتخابات کا اعلان کیا تو جے پرکاش نارائن نے جنتا پارٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی بنائی۔ پارٹی قام ہوئی اور مرار جی دیسائی وزیر اعظم بنائے گئے۔ لیکن تین سال کے اندر اندرا گاندھی کی کانگریس پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آئی۔ جنتا پارٹی میں شامل اپوزیشن پارٹیاں تو بکھر گئی تھیں لیکن آر ایس ایس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے ایک پارٹی بنائی اور اسے مضبوط بنایا۔ اس وقت سے آج تک کانگریس کے مقابلہ پر وہی کھڑی ہوئی ہے۔ اس دوران بہت علاقائی پارٹیاں بھی وجود میں آگئیں۔ ان میں سے کچھ بہت کامیاب ہوئیں۔ اس دوران بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار آگئی کچھ علاقائی پارٹیاں بھی سرگرم ہیں لیکن اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے مابین ہے۔ بی جے پی ترقیاتی ایجنڈے پر کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ 2024کے الیکشن میں اسے کامیابی ملی لیکن معمولی اکثریت سے۔ لہٰذا اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے تخریبی ایجنڈے کو ہی مضبوط بناکر الیکشن لڑے گی۔ اس لیے اب وہ دھوکہ دہی کے خفیہ ایجنڈے کو پوشیدہ رکھنے کی بجائے علانیہ یہ ایجنڈا چلارہی ہے۔ مسلمانوں، نچلی ذاتوں اور پسماندہ طبقات کو دباکر مزید کمزور کرنا اس کے ایجنڈے کا خاص حصہ ہے اور وہ اسی پر عمل کر رہی ہے۔