
خبرونظر
پرواز رحمانی
مصنوعی کامیابی کے بعد
دلی اسمبلی کے انتخابات میں مصنوعی کامیابی کے بعد بی جے پی کے چھوٹے بڑے لیڈروں اور حماییتوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ چھوٹے لیڈر اور کارکن تو اپنی اصل بھاشا پر اتر آئے ہیں۔ نریندر مودی خود کو باضابطہ وزیر اعظم سمجھ رہے ہیں، حالانکہ پارلیمانی پارٹی نے انہیں لیڈر منتخب نہیں کیا، لوک سبھا انتخابات کے بعد پارٹی کی میٹنگ ہوئی ہی نہیں این ڈی اے کی ہوئی تھی، اسی میں کسی نے انہیں لیڈر کہہ دیا تھا، بی جے پی نے اسی کو کافی سمجھ کر انہیں وزیر اعظم قرار دے لیا۔ پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ آج تک نہیں ہوئی۔ انتخابات میں بی جے پی کسی کامیابی کو مصنوعی کامیابی اس لیے کہا گیا کہ دلی کا یہ انتخاب بھی ہریانہ اور مہاراشٹر کی طرح الیکشن کمشنر ای وی ایم کی طرح چالاکیوں سے بھرپور الیکشن تھا۔ اس میں وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن کے لیے بی جے پی مشہور ہوچکی ہے۔ اس کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں کیوں کہ بڑی پارٹیاں اس پر قرار واقعی احتجاج نہیں کر رہی ہیں۔ جو لوگ اس کے خلاف مضبوط ثبوت پیش کر رہے ہیں انہیں وہ بدنام کر رہی ہے۔ پارٹی یہ کام اس لیے کر رہی ہے کہ کرنے کا اچھا کام اس کے پاس نہیں ہے۔ آر ایس ایس اول روز سے انگریزی سرکار کی حمایتی ہے۔ یہ نہیں کہ سنگھ نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ اس نے بہتری کوشش کی اور بار بار کی مگر کامیاب نہیں ہوئی اس لیے کہ مثبت سوچ اور اچھا کام پارٹی کی سرسشت میں ہے ہی نہیں۔ اس نے پہلے ہی دن کچھ لوگوں کو مخالف قرار دے کر ان کے خلاف کام شروع کردیا تھا۔ اگر کوئی اچھا کام اس کے ذریعہ ہو بھی جاتا ہے تو وہ اسے راس نہیں آتا۔ وہ اس پر زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتی۔ سنگھ اور بی جے پی کا کاروبار جب سے مودی کے ہاتھوں میں آیا ہے۔ پارٹی کا مروجہ طریقہ مزید بڑھ گیا ہے۔ پارٹی کا تمام تر دار و مدار اب صرف منفی طریقوں میں ہے۔ کوئی تعمیری کام پارٹی کے پاس نہیں رہا۔
نچلی ذاتوں کی حالت
مسلمانوں کے علاوہ دلت و پچھڑی ذاتیں اور پسماندہ طبقات بھی سنگھ کے نشانے پر ہیں۔ ان سے وہ خوب کام لیتی ہیں۔ رائے شماری میں بڑے فخر کے ساتھ انہیں شامل کرتی ہیں۔ ان کی شمولیت کی بنیاد پر ہی اپنی تعداد کو اکثریت بتاتی ہے۔ مسلم مخالف فساد میں دلتوں کو خوب استعمال کرتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ دلت اور نچلی برادریاں بھی خوب استعمال ہوتی ہیں۔ ہندو مسلم فسادات میں اپر کاسٹ ہندو کہیں دکھائی نہیں دیتے، ہندووں کا کردار دلت اور نچلی برادریاں ادا کرتی ہیں۔ سماجی طور پر ان کا کوئی نظریہ بھی نہیں ہے جس کے لیے وہ لڑتے ہوں۔ دلت لیڈروں سے بارہا پوچھا گیا کہ ہزاروں یا لاکھوں سال قبل جب ہندو برادری تشکیل پارہی تھی تو تشکیل دینے والوں نے دلتوں کو نیچ ذات قرار دے دیا اور ان کی برادریاں بھی بنادیں تو اس وقت دلت لیڈروں نے احتجاج کیوں نہیں کیا، ہندووں سے نہیں پوچھا کہ ہمیں نچلی ذاتوں میں کیوں رکھا جارہا ہے آپ کون ہوتے ہیں ہمیں نیچ قرار دینے والے؟ لیکن کسی لیڈر نے اس کا جواب کبھی نہیں دیا۔ بیسیویں صدی میں ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے یہ آواز اٹھائی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں ہندو کیوں کہا جاتا ہے، ہم ہندو نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بعد کسی نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا۔ البتہ دلت ذاتوں نے خود امبیڈکر کو بھگوان اور پرماتما بنالیا۔ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے آج بھی وہ آر ایس ایس کی باتوں میں بڑی آسانی کے ساتھ آجاتے ہیں اور اس کے کام انجام دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو دبا کر رکھنا سنگھ کا ایک بڑا کام ہے اور دلت یہ کام بخوبی کرتے ہیں۔ گجرات کے سنہ 2002 کے فسادات میں مسلمانوں سے لڑنے کا کام نچلی ذاتوں نے ہی کیا تھا۔ اپر کاسٹ والوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات لوٹی تھیں۔ سنگھ دنیاسے یہی کہتا رہا کہ گجرات میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو اکھاڑ دیا۔ سنگھ بوقت ضرورت بڑے فخر کے ساتھ دلتوں کو ہندو کہتا ہے۔
عوام تبدیلی چاہتے ہیں
اب سنگھ اور اس کی پارٹی کے پاس جو کام رہ گئے ہیں وہ ہیں منو واد کو فروغ دینا، سنگھ اور پارٹی کو پھیلانا، جن لوگوں کو وہ ہندو کہتے ہیں ان کی تعداد بڑھانا، پوری سرکاری مشنیری پر قبضہ کرنا، ملکی اقتدار پوری طرح قبضے میں لینا۔ اقلیتوں اور نچلی جاتیوں کو پریشان کرنا۔ یہ ان کے ایجنڈے کی ضرورت بھی ہے۔ حال ہی میں یو پی چرب زبان وزیر اعلیٰ نے اردو زبان کو کٹھ ملاوں کی زبان کہہ کر گویا گالی دی تھی۔ اس پر اردو والوں اور مخالف سیاسی پارٹیوں نے وزیر اعلیٰ کی خوب مذمت کی اور اب تک کر رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو گالیاں بکنا بھی ایک کام ہے۔ لوک سبھا کے دو عام انتخابات میں بی جے پی بھاری اکثریت سے جیتی تھی۔ وہ مودی کی جیت سمجھی جاتی تھی۔ مودی کو اس جیت کا گھمنڈ تھا۔ پارلیمنٹ میں انتہائی من مانی کی جا رہی تھی۔ بڑے بڑے اہم بل منٹوں میں پاس ہو رہے تھے۔ یہ گھمنڈ راہل گاندھی نے توڑ دیا۔ اس لیے مودی اپنی تیسری باری میں پریشان ہیں۔ حکومت دو بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اب کوئی من مانی نہیں چل سکتی۔ ہاں باہر حکومت کی تمام ایجنسیاں مودی کے قبضے میں ہیں۔ ان ایجنسیوں کی بنیاد پر ہی حکومت کسی طرح چل رہی ہے۔ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندر بابو نائیڈو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا رویہ غیر یقینی ہے۔ حکومت ہر وقت خطر ہ محسوس کرتی ہے۔ بیرون ملک بھی اب مودی کی کوئی قدر نہیں۔ امریکہ، کناڈا، برطانیہ اب انڈیا کو ٹیڑھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اندرون ملک اپوزیشن مضبوط ہے اور دن بدن طاقتور ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کے پاس چونکہ مثبت ایجنڈا نہیں ہے، وہ روایتی طور طریقوں سے اپنا کام چلار ہی ہے۔ اس لیے حکومت کسی بھی وقت گرسکتی ہے۔ منفی ایجنڈا اب کام نہیں آ سکتا ۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت اب تبدیلی چاہتی ہے۔