خبرونظر

پرواز رحمانی

دہلی اسمبلی انتخابات

دہلی اسمبلی کے انتخابات اس بار کافی ہنگامہ خیز رہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے کیجری وال کی عام آدمی پارٹی دہلی پر حکومت کررہی تھی، اس سے پہلے پندرہ سال تک کانگریس کی لیڈر شیلا دکشت کا مضبوط راج رہا ہے۔ اس سے پہلے کی تاریخ یہ ہے کہ پہلے جب دہلی میٹرو پولیٹکل کونسل تھی، کانگریس اور جن سنگھ دہلی پر باری باری سے حکومت کرتی تھیں، اس کے بعد اسمبلی بنی تو یہی دو پارٹیاں رہیں۔ پھر مہاراشٹر کے سوشل لیڈر انا ہزارے کا عروج ہوا۔ ہزارے کا آندولن بنیادی طور پر بی جے پی کو مضبوط بنارہا تھا۔ اسی آندولن سے اروند کیجریوال نکلے او رانا ہزارے علیحدہ ہوگئے۔ کیجریوال نے لگاتار تین بار مضبوطی کے ساتھ حکومت بنائی۔ اس دوران عام آدمی پارٹی کوہرانے کے لیے بی جے پی نے بہت زور مارا لیکن بری طرح ہارتی رہی۔ لیکن اس بار ہریانہ اور مہاراشٹرا کے تجربات کے بعد اس نے دہلی میں کامیابی حاصل کرلی۔ دہلی میں مکمل اور با اختیار اسمبلی نہیں ہے۔ کئی بڑے اور اہم شعبے مرکزی حکومت کے پاس ہیں، اس طرح مرکزی حکومت لفٹننٹ گورنر کے توسط سے دلی پر حکومت کرتی ہے۔ لفٹننٹ گورنر مرکزی وزیر داخلہ کے تحت کام کرتا ہے۔ دہلی کا ایل جی کچھ زیادہ ہی مرکز کا وفادار ہوتا ہے۔گزشتہ پندرہ برسوں میں ایل جی نے چیف منسٹر کوپریشان کرنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن کیجریوال اور ان کے ساتھی بھی کچھ کم چالاک نہیں تھے۔ انہوں نے ایل جی کی بہت سی کوششوں کو ناکام بنایا اور مضبوطی کے ساتھ حکومت پر جمے رہے لیکن مکمل آزادی کے ساتھ کام نہیں کرسکے۔ اس بار اگرچہ مرکز نے اپنے خاموش طریقے استعمال کیے ۔ الیکشن کمشنر نے بی جے پی کے کارکن کے طور پر کام کیا۔ اس طرح بی جے پی جیت گئی۔ کانگریس کے لیے دہلی میں کوئی امید نہیں ہے، چنانچہ وہ بری طرح ناکام رہی۔ اب عام آدمی پارٹی کو مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ باقی ملک میں کانگریس اب بھی بی جے پی پر بھاری ہے۔ مودی کے مقابلے میں راہل گاندھی کی بات کی جاتی ہے۔ بی جے پی حکومت کو اب بھی کانگریس سے خطرہ ہے۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو اب بھی بی جے پی اور اس کی حکومت کو پریشان کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

سنگھ پر پابندی کی حقیقت

دہلی کے انتخابات میں تین بڑی پارٹیوں کےعلاوہ کچھ دوسری پارٹیوں نے بھی خوب ہنگامہ مچایا۔ کچھ تیز زبان مسلم لیڈر بھی میدان میں آگئے۔ ان کی سرگرمیوں کا نقصان کانگریس کو پہنچا۔ یہ درست ہے کہ اب دہلی اسمبلی میں کچھ نئے مسلم ممبر بھی ہوں گے لیکن وہ اپنی قوم اور عام انسانوں کے لیے کیاکرسکیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ باخبر مسلمان چاہتے ہیں کہ ایک طرف جہاں اس ملک کی غیر مسلم اکثریت مثبت سوچ اور فکر رکھتی ہے، مسلمانوں یا کسی اور اقلیت کے خلاف منفی جذبات نہیں رکھتی وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف منفی جذبات رکھتا ہے۔ مسلمانوں کو ہر پہلو سے پریشان دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے خلاف نت نئی سازشیں کرتا ہے، بدقسمتی سے وہی طبقہ آج اقتدار پر قابض ہے۔ ملکی انتظامیہ کا ہر شعبہ اسی کے پاس ہے۔ گو کہ اس طبقے کی تعداد بہت زیادہ نہیں لیکن اس نے اپنی ذہانت سے اقتدار کے ہر شعبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مالی وسائل پر بھی وہی قابض ہے۔ وہی طبقہ ایک مخصوص سیاسی نظریہ بھی رکھتا ہے ۔ ملک میں اس نظریہ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے۔ اس سیاسی فکر کے خلاف کوئی سیاسی پارٹی نہیں بنی۔ کانگریس مسلمانوں کی خیر خواہ سمجھتی جاتی رہی ہے، وہ خود کو آر ایس ایس کے خلاف بھی کہتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ مسلمانوں کو سنگھ سے ڈرا کر ان کے ووٹ حاصل کرتی رہی۔ 1980 کے عام انتخابات اس نے سنگھ کی حمایت سے جیتے تھے۔ حقیقی پابندی کانگریس نے کبھی نہیں لگائی۔ جب بھی پابندی لگائی کسی مسلم پارٹی کو بھی شامل کرلیا۔ 1975 میں جئے پرکاش نارائن کی حکومت مخالف تحریک کے خلاف جو پابندی لگی تھی وہ دراصل اسی تحریک کے خلاف تھی لیکن اس پر پابندی نہیں لگ سکتی تھی۔ اس لیے کہ وہ ایک سیاسی تحریک تھی لیکن اندرا گاندھی کی حکومت جانتی تھی کہ اس تحریک کے پیچھے آر ایس ایس ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس پر پابندی لگا دی۔ لیکن چونکہ حکومت میں صرف سنگھ پر پابندی کی ہمت نہیں تھی اس لیے جماعت اسلامی ہند کو بھی پھانس لیا۔ اسی طرح 1980 کی دہائی میں مندر آندولن کے تناظر میں سنگھ پرپابندی لگائی تو اس وقت بھی جماعت کو اس پابندی میں گھسیٹ لیا۔

مسلم لیڈروں کی شمولیت

غرض آر ایس ایس پر کانگریس حکومت کی پابندی دکھاوے کی تھی۔ حکومت میں اس کی ہمت نہیں تھی۔ البتہ اس بار راہل گاندھی کی زیر قیادت کانگریس پارٹی سنگھ کے خلاف جو کچھ کہہ رہی ہے اس میں دم ہے۔ راہل گاندھی کے بیانات میں نظریاتی چیلنج پایا جاتا ہے۔ ان کی مخالفت میں جان ہے۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ آج کی کانگریس فی الواقع نظریاتی پارٹی ہے۔ اس گروہ کو چیلنج کررہی ہے جو مذہبی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو پریشان کررہا ہے۔ اس لیے آج کی سیاست میں مسلمانوں کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ نظریہ کو علمی طورپر چیلنج کریں۔ اور ان پارٹیوں کی حمایت کریں جو اس تخریبی نظریہ کی مخالف ہیں۔ اس لیے باخبر مسلمان کانگریس کی حمایت کررہے ہیں۔ جن مسلمانوں اور مسلم پارٹیوں نے دہلی کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا جن مسلم لیڈروں نے زور بیان دکھایا انہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ ان کی کوششوں سے چند مسلمان تو اسمبلی میں پہنچ جائیں گے لیکن ایک ایسی سیاسی قوت کو نقصان پہنچے گا جو ایک تخریبی سیاسی نظریاتی پارٹی کے خلاف ابھر رہی ہے۔ درست ہے کہ ہماری کوششوں سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ اس وقت ملک کا سیاسی اور سماجی نقشہ ایسا ہے کہ مسلمان اس میں کچھ نہیں کرسکتے حالات پر صرف صبر کرسکتے ہیں۔ البتہ مسلمان حالات کی سنگینی اور ملک کو پہنچنے والے نقصان سے عام لوگوں کو باخبر کرسکتے ہیں، وہ اس طرح کہ سول سوسائٹی اور پڑھے لکھے غیر مسلم بھائیوں سے روابط قائم کریں عام لوگوں کو بھی اسلام اور مسلمانوں کی حقیقت سے باخبر کریں۔ اسلام اور امت مسلمہ کے حقائق سے لوگوں کو باخبر کرنا ضروری ہے۔ بہت سے غیر مسلم اسلام کے بارے میں ناواقفیت کی وجہ سے دین اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسلام کا باقاعدہ اور منصوبہ بند تعارف ماضی میں بھی نہیں ہوا۔ وطنی بھائیوں کو دین اسلام سے متعارف کرانا آج مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ نا واقفیت کی بنا پر بہت سے غیر مسلم بھائی سنی سنائی باتوں پر بہت یقین کرلیتے ہیں۔ اسلام اور امت مسلمہ کی تاریخ کے بارےمیں غلط فہمیاں پھیلانے والے بھی پائے جاتے ہیں۔