خبرونظر

پرواز رحمانی

وقف بل کیا ہے

وقف بل یعنی مسلم اوقاف پر کنٹرول کرنے کی سنگھی کوشش اسی وقت سے جاری ہے جب سنگھ کے لیڈر گولوالکر نے اپنی کتاب "بنچ آف تھاٹس” میں مسلمانوں کو بھارتی عوام یعنی ہندوستانی قوم سے علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔ گولوالکر اس وقت آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک یعنی سربراہ تھے۔ مسلم شہریوں کے خلاف اس میں اور بھی کئی باتیں ہیں۔ یکساں سِول کوڈ بھی ان میں شامل ہے۔ یکساں سِول کوڈ یعنی تمام شہریوں کے لیے شادی بیاہ، وراثت وغیرہ کے قانون یکساں ہوں، لیکن ان قوانین کے ذریعے بی جے پی یعنی سنگھ مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ دستور ہند کی جگہ منو اسمرتی کی فرماں روائی چاہتی ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ میں سرکار نے پہلے ہی کچھ غیر مسلموں کو بھیج دیا ہے۔ وقف بل کے ذریعہ بھی اس کی کوشش ہے کہ مسلم جائیدادوں پر ریشہ دوانی کی جائے ۔ ویسے حکومت اور سِول سوسائٹی کے لوگ جانتے ہیں کہ یہ تمام کام عملاً ناممکن ہیں۔ یکساں سِول کوڈ کا کوئی نمونہ کوئی خاکہ یا بلیو پرنٹ حکومت یا سنگھ نے ہنوز پیش نہیں کیا اور کوئی کر بھی نہیں سکتا۔ یہ تمام مسائل حکومت الیکشن جیتنے کے لیے اٹھارہی ہے۔ حکومت کی کوشش عرصے سے یہ ہے کہ ہر الیکشن کے موقع پر فرقہ وارانہ ماحول گرم ہوجائے۔ عام ہندو اپنے دھرم کا گیان دھیان نہیں رکھتا اس لیے سنگھ اور پارٹی کے بہکاوے میں فوراً آجاتا ہے۔ مثال کے طور پر یکساں سِول کوڈ کو لیجیے۔ یکساں سِول کوڈ کے حامی خود کہتے ہیں کہ یہ کوڈ تمام مذاہب پر مشتمل ہوگا اس میں ہندو دھرم کے علاوہ عیسائیت، سکھ مت، بدھ مت، سب کی باتیں شامل ہوں گی لیکن ہندو برادران یہ نہیں سمجھتے کہ جتنی باتیں دوسرے مذاہب سے لی جائیں گی اتنی ہی باتیں انہیں اپنے دھرم سے نکالنی ہوں گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ موجودہ ہندو دھرم کو من و عن قائم رکھتے ہوئے اس میں دوسرے دھرموں کے احکام شامل کیے جائیں گے۔ اسی لیے مسلمان چاہتے ہیں کہ پہلے تم اپنا مجوزہ یکساں کوڈ بتاو۔

مسلم پرسنل لا مکمل ہے

مسلمانوں کا موقف اول روز سے واضح ہے کہ مسلم پرسن لا مکمل اور صاف ہے۔ اس میں وہ ذرہ برابر بھی تبدیلی یا ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ مان لیجیے کہ اگر ایک سِول کوڈ ایک ہزار دفعات پر مبنی ہو اس کی 99 دفعات اسلام سے لی جائیں صرف ایک دفعہ تبدیل کی جائے تو ایسا کوڈ بھی مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ ہندو دھرم کو ماننے والوں کے لیے یہ کوئی بات نہیں ہے اسی لیے وہ بڑی فراخدالی سے یکساں سِول کوڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو بھائی جس طرح اسلام سے بے خبر ہیں اسی طرح وہ ہندو دھرم سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ وقف کا معاملہ بھی واضح ہے۔ جو صاحب اپنی رقم یا جائیداد کسی مقصد کے لیے وقف کرتے ہیں وہ اسی مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ جو لوگ اسلام کے اس عقیدے پر ایمان نہیں رکھتے، وقف کمیٹی میں ان کی شمولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج کل جو لوگ سوشل میڈیا پر اس پر بحث کررہے ہیں ان میں اکثر اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں، بہت احتیاط کے ساتھ بولتے ہیں۔ ان دو باتوں کے علاوہ حکومت اور اس کے چھوٹے بڑے کارندے کچھ اور امور پر بھی ہندو برادران کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان سب میں اوپر خود وزیراعظم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں مسلمان گھس پیٹھیے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کانگریس پارٹی ہندووں کی دولت چھین کر مسلمانوں میں بانٹنا چاہتی ہے کبھی کہتے ہیں مسلمان تمہاری عورتوں کے منگل سوتر چھیننا چاہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں مسلمان چند سال بعد بھارت پر قبضہ کرلیں گے۔ دوسرے نمبر پر یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ آتے ہیں۔ وہ مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں کے بارے میں زیادہ بولتے ہیں۔ آسودہ مسلمانوں کے مکانات گرواتے ہیں کہتے ہیں سنبھل میں میر باقی نے مندر توڑ کر مسجد بنائی تھی۔ بیشتر مسجدوں کے نیچے مندر ملیں گے ۔

حکومت وقف بل میں الجھ گئی

سنگھ 1925میں قائم ہوا تھا۔ ابتدا میں اس کے سامنے الیکشن کا سوال نہیں تھا۔ اس وقت عام ہندوؤں کی طرف سے ہندو مہا سبھا الیکشن لڑا کرتی تھی۔ آر ایس ایس صرف برہمنوں اور اونچی ذات کے مندروں کو مضبوط بڑھانے کے لیے کام کرتی تھی۔ لیکن 60کی دہائی کی ابتداء میں اس نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا اور بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے ایک پارٹی بنالی۔ ہندو مہا سبھا بھی اس کے ساتھ ہوگئی۔ ملک میں حکومت انگریزوں کی تھی۔ گاندھی جی کی قیادت میں ملک عام ہندو اور مسلمان انگریزی سامراج کے خلاف لڑ رہے تھے۔ لیکن آر ایس ایس انگریزی حکومت کے ساتھ تھی۔ اس سے مالی فائدے اٹھا رہی تھی، رسد اور سپلائی تمام بڑے بڑے ٹھیکے آر ایس ایس اور جن سنگھ کے پاس تھے۔ گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ گاندھی جی کانگریس کے باقاعدہ ممبر نہیں تھے لیکن کانگریس کے لوگ انہی کو اپنا سپریم لیڈر مانتے تھے۔ کانگریس کے علاوہ انڈین یونین مسلم لیگ بھی جنگ آزادی میں شامل تھی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی ری پبلکن پارٹی آزادی چاہتی تھی۔ ہندوستانیوں میں جن سنگھ تھی جو انگریزی حکومت کے ساتھ کام کر رہی تھی ورنہ پورا ملک انگریزی حکومت کے خلاف تھا۔ اس طرح ایک طرف آر ایس ایس کی بنائی ہوئی جن سنگھ تھی جو حکومت کے لیے کا م کر رہی تھی دوسری طرف پورا ملک تھا جو آزادی کی جدوجہد کر رہا تھا۔ اسی دوران جن سنگھ یعنی آر ایس ایس نے مسلمانوں کے خلاف لڑنا شروع کیا جیسا کہ گولوالکر کی کتاب بنچ آف تھاٹس میں تعلیم دی گئی تھی۔ انگریز حکومت 1947میں ختم ہوگئی اور ملک آزاد ہوگیا۔ ملک میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی۔ پنڈت جواہر لال نہرو وزیراعظم بن گئے لیکن جن سنگھ نے اپنا ایجنڈا نہیں چھوڑا۔ وہ آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے کام کرتی ہے۔ چالاکیوں اور مکاری سے حکومت بھی بنالی۔ گیارہ سال سے حکومت کر رہی ہے لیکن اب ملک کا رجحان بدل گیا ہے۔ حکومت وقف بل میں الجھ گئی ہے ۔