خبرونظر

پرواز رحمانی

آر ایس ایس کا کھیل

2013 میں لوک سبھا کے عام انتخابات کا غوغا بلند ہوا۔ وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا آخری وقت تھا، کانگریس کم زور ہو چکی تھی لیکن اس کم زوری کے باوجود کانگریس کی حکومت نے اپنے دس سالہ دور میں بڑے بڑے کام انجام دیے۔ مگر الیکشن میں اس کی کامیابی کا امکان کم ہو چلا تھا اس لیے بی جے پی نئے جوش و خروش کے ساتھ اٹھ رہی تھی۔ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی کو آگے بڑھا رہی تھی۔ اعلان کیا گیا کہ لوک سبھا کے انتخابات مودی کی قیادت میں لڑے جائیں گے۔ مودی کے ساتھی امیت شاہ کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ پہلے دورے پر وہ یو پی گئے، وہاں دو فرقوں میں جھگڑے فساد کی باتوں سے ماحول گرمایا۔ ادھر بی جے پی نے مودی کو وزیر اعظم بنانے شور بلند کیا۔ ملک میں اور ملک سے باہر مودی کے نعرے گونجنے لگے۔ ایک طرف بی جے پی مودی اور امیت شاہ فرقہ وارایت کے نئے نئے میدان تیار کر رہی تھی اور دوسری طرف مسلمانوں کو ساتھ رکھنے کی بات بھی کر رہی تھی۔ پارٹی نے اعلان کیا اس نے اپنے الیکشن مینی فیسٹو کے ساتھ مسلمانوں کے لیے بھی ایک پروگرام تیار کیا ہے جسے۔ مینی فیسٹو کے ساتھ جاری کیا جائے گا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی، آخرکار اسے منسوخ کر دیا گیا۔ بی جے پی بھرپور اکثریت سے پہلی بار کامیاب ہوئی اور حکومت بنائی۔ حکومت بننے کے چند روز بعد آر ایس ایس سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے لگا تار تین دنوں تک بھاشن دیا جس میں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی کچھ باتیں تھیں۔ مبصرین اور سِول سوسائٹی کا احساس تھا کہ سنگھ اب خود کو بدل رہا ہے لیکن یہ احساس زیادہ دن قائم نہیں رہا۔ بی جے پی کارکنوں اور حمایتیوں نے دنگے فساد شروع کر دیے۔ گئو کشی کے الزامات کے شور میں مسلمانوں کو سر بازار مارا جانے لگا۔ اسی دوران موہن بھاگوت کا بھاشن کہیں لاپتہ ہوگیا۔ نئی حکومت بننے کے بعد یو پی کے ایک سابق وزیر اعلیٰ نے اٹل بہاری واجپائی بننے کی کوشش کی لیکن مودی اور امیت شاہ نے اسے ناکام بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں

اداریہ

دس برسوں میں کیا ہوا

الغرض گزشتہ دس برسوں میں بی جے پی اور اس کے چھوٹے بڑے لیڈروں نے زیادہ فساد تو نہیں پھیلایا اور کچھ مثبت کوششیں بھی کیں۔ یہ اور بات ہے کہ نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ موہن بھاگوت کے تین دنوں کے بھاشن میں متعدد مثبت باتیں تھیں لیکن عمل کسی ایک پر بھی نہیں ہوا۔ الیکشن سے پہلے مسلمانوں کے لیے کوئی مثبت پروگرام ہونا تھا، پارٹی نے اسے پہلے ہی منسوخ کر دیا۔ ایسا کئی بار ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف مودی نے سخت ترین بیان دیا مگر بعد میں مکر گئے۔ کہا کہ یہ بیان میرا نہیں ہے، یا ایسا میں نے نہیں کہا۔ کبھی کہا کانگریس نے میری باتوں کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا ہے۔ اس طرح بی جے پی نے دس برسوں تک مسلمانوں کے سلسلے میں الٹ پلٹ کا کھیل جاری رکھا اور اب گیارہویں سال بھی اس کا وہی کھیل جاری ہے۔ آسانی اس کی یہ ہے کہ سرکاری ایجنسیاں پہلے سے زیادہ اس کے ساتھ ہیں۔ ای ڈی، سی بی آئی، الیکشن کمیشن اور اس کی ای وی ایم اور دوسری کئی ایجنسیاں ہیں۔ بی جے پی بالخصوص پرائم منسٹر مودی کے اشاروں پر چلتی ہیں۔ اب مودی نے سرکاری پرائیویٹ افراد کو پھانسنا شروع کر دیا ہے۔ کارپوریٹ طبقہ تو پہلے ہی اس کے ساتھ ہے۔ امبانی، اڈانی، ٹاٹا، برلا وغیرہ جی جان سے اس کے ساتھ ہیں۔ اب مودی نے ججوں کو بھی ورغلانا شروع کر دیا ہے۔ چندر چوڑ کا قصہ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ نئے چیف جسٹس کے ہلکے پھلکے دو تین واقعات سامنے آئے ہیں۔ تازہ واقعہ جسٹس چندر شیکھر یادو کا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگ مسلمانوں کے خلاف جو کچھ بولتے ہیں، شیکھر یادو نے انہیں درست قرار دیا ہے۔ یکساں سِول کوڈ کے حق میں کئی ججوں نے زبان کھولی ہے۔ مودی ملک میں یکساں سِول کوڈ کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ آغاز اتر اکھنڈ سے کرنے کا پروگرام ہے۔ خبر ہے کہ اس ریاست میں ماہ رواں کے آخر تک یکساں سِول کوڈ نافذ ہوجائے گا۔ موہن بھاگوت بھی اس کے حمایتی ہیں۔ جب کہ گرو گولوالکر نے ایک انٹرویو میں اس کے خلاف رائے دہی تھی۔

اب کیا ہوگا

بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی کھیل ہے۔ سنگھ کی سیکڑوں ذیلی تنظیمیں ہیں بی جے پی ان میں سے ایک ہے۔ سنگھ 1925میں قائم ہوا تھا۔ اس سال سے پورے سو سال ہوگئے ہیں۔ جشن صد سالہ وہ پوری طاقت سے اور دھوم دھام کے ساتھ منانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہسٹری اس کی یہ ہے کہ جب گاندھی جی اور پنڈت نہرو وغیرہ کی قیادت میں عوام ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے تو سنگھ انگریزی حکومت کے ساتھ تھا۔ سپلائی اور رسد کے نام پر بڑے بڑے ٹھیکے سنگھ کے لوگوں کے پاس تھے۔ علاوہ ازیں سنگھ گاندھی اور نہرو کے خلاف عوام کو اکسانے کا کام بھی کرتا تھا۔ 1947میں ملک آزاد ہوا تو سنگھ نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا۔ وہ آزادی کے خلاف تھا۔ اس کے علاوہ سنگھ نے اپنی عوامی پالیسیاں بھی بنائیں۔ اس سلسلے کی نمایاں کتاب ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ ہے جو گولوالکر نے لکھی ہے۔ اس میں اس نے اپنی تمام پالیسیاں لکھی ہیں ۔ سنگھ ،مستقلاً اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی مخالفت کرے گا اور وہ آج تک اس پر قائم ہے۔ مسلمانوں کو پریشان کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتا ہے، بی جے پی اور وشوہندو پریشد ان پر عمل کرتے ہیں ۔ آر ایس ایس کا کوئی لیڈر اس کے خلاف نہیں جاتا۔ مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خود کو منوانے کے لیے سنگھ کے خلاف بغاوت کرسکتے ہیں لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یکساں سِول کوڈ بھی سنگھ کا کھیل ہے۔ ایودھیا کا رام مندر سنگھ کے پروگرام میں پہلے کبھی نہیں رہا۔ یہ ’’مُدا‘‘ اسے اچانک ہاتھ آگیا۔ اب تو وہ پوری طرح اس کے ہاتھ میں ہے۔ مساجد، مدارس اور قبرستانوں پر ہمیشہ سنگھ کی نگاہ بد رہی ہے۔ غرض مسلم مخالفت سنگھ کی بنیادی پالیسی ہے لیکن زیادہ تر ’’مُدے‘‘ شور شرابے اور نعرے بازی تک محدود ہیں۔ حقیقت ایک بھی نہیں ہے۔ مثلاً یکساں سِول کوڈ کو دیکھیے یہ محض نعرہ ہے حقیقت اس کی کچھ نہیں ہے۔ سنگھ نے اس کا بلیو پرنٹ آج تک نہیں بنایا ہے۔ راجستھان میں ایک یونیورسٹی نے یہ کام شروع کیا تھا لیکن وہ آگے بڑھے بغیر ہی بوسیدہ ہوگیا ہے۔ سنگھ یا بی جے پی کے دوسرے لوگوں کی حقیقت بھی یہی ہے۔