خبرونظر

پرواز رحمانی

جماعت اسلامی کا اجتماع ارکان

ہر پانچ سال میں یا کبھی کبھی اس سے کچھ زیادہ عرصے میں جماعت اسلامی ہند کا کل ہند اجتماع منعقد ہوتا ہے۔ پہلا اجتماع رام پور میں، دوسرا اجتماع دلی میں اور تیسرا اجتماع حیدرآباد میں وادی ہدیٰ میں ہوا۔ یہ ایک وسیع جگہ ہے جو جماعت نے حاصل کی ہے۔ نام وادی ہدیٰ رکھا ہے۔ یہ نام تقریباً ساری دنیا میں معروف ہے۔ تیسرا اجتماع 1967میں ہوا تھا۔ اس میں ارکان کی تعداد تقریباً چار ہزار اور ہمدردان و وابستگان کی چھ ہزار کے قریب تھی۔ اسی طرح کل تعداد تقریباً دس ہزار تھی۔ یہ آل انڈیا اجتماع تھا۔ پہلے ارکان کی تعداد کم ہوا کرتی تھی اس لیے آل انڈیا اجتماعات بہ آسانی ہوجایا کرتے تھے۔ انتظامات میں کوئی شکایت نہ ہوتی تھی۔ 1981 کا آل انڈیا اجتماع عام بھی وادی ہدیٰ میں منعقد ہوا تھا جس میں ایران کے انقلابی رہنما امام خمینی کو دعوت دی گئی تھی انہوں نے دعوت قبول کرلی تھی اور شرکت کا ارادہ بھی کرلیا تھا لیکن عین وقت پر کوئی دقت پیش آگئی اس لیے اپنے معاون خصوصی امام خامنہ ای کو روانہ کیا۔ اس میں مولانا محمد یوسف صاحب اصلاحی نے خاص طور سے شرکت کی تھی۔ امام خامنہ ای اور مولانا ندوی کی شرکت کی وجہ سے اجتماع میں ایک خاص رنگ پیدا ہوگیا تھا۔ 1974 کے اجتماع عام میں بھی جنوبی و شمالی افریقہ امریکہ وغیرہ سے مہمان شریک ہوئے تھے۔ یہ اجتماع دہلی میں گاندھی درشن کے میدان میں ہوا تھا۔ بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد قیادت نے فیصلہ کیا کہ اب آل انڈیا اجتماعات نہیں ہوں گے کیوں کہ انتظامات میں مشکلات پیش آتی ہیں اور مقاصد بھی پورے نہیں ہوتے۔ اس لیے منطقی اجتماعات ہونے چاہئیں جو تین یا چار حلقوں میں مشتمل ہوں۔ یہ اجتماعات بھی شرکا کے لحاظ سے بڑے ثابت ہوئے۔ اب غالباً طے کیا گیا کہ آل انڈیا اجتماع صرف ارکان کا ہو، دیگر اجتماعات حلقہ وار ہوں۔

جماعت میں برکت

الحمدللہ ارکان کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے جن میں ارکان کے ساتھ ساتھ کارکنان ‘ہمدرد اور دیگر وابستگان بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح سرکاری تعداد بہت ہو جاتی ہے اس لیے انتظامات میں قدرے دشورای ہوتی ہے۔ لہٰذا ب آل انڈیا اجتماع منعقد نہیں کیا جاتا، کل ہند اجتماع صرف ارکان کا ہوتا ہے۔ حیدرآباد کا اجتماع بھی صرف ارکان کا تھا جس میں شرکا کی تعداد تقریباً بیس ہزار تھی، اس میں دیگر وابستگان اور کارکنان بھی شامل تھے۔ صرف ارکان کا اجتماع بھی بڑا ہوتا ہے لیکن بد نظمی بالکل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے اجتماع میں پہلے دن کھانے میں کچھ خلل پڑا۔ معمر اور کمزور افراد کے لیے بستروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شرکا نے سیلف ڈسپلن قائم کیا جیسا کہ وہ ہر اجتماع میں کرتے آئے ہیں۔ اجتماع کی اطلاع پولیس کو نہیں بھی دی جاتی۔ پولیس اپنے طور پر اجتماع میں موجود رہتی ہے لیکن اسے کوئی زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ اجتماع میں ملکی اور بین الاقوامی موضوعات ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس اجتماع میں بھی تمام موضوعات تھے۔ سیمنار اور سمپوزیم میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ سب کو اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔ 1967 میں حیدرآباد میں پہلی بار شرکت کا موقع ملا تھا جو وادی ہدیٰ ہی میں ہوا تھا۔ وہیں مرکزی قائدین سے مصافحہ کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اسے اجتماع کی کارروائی ابھی تک ذہن میں محفوظ ہے۔ جماعت اسلامی ہند میں اب تک چھ کل ہند امیر ہوئے ہیں۔ پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی تھے جو دوبار رہے۔ پہلی بار قیام جماعت سے 1972 تک دوسری بار 1972 سے 1981 تک۔ دوسرے امیر محمد یوسف صاحب تیسرے محمد سراج الحسن صاحب چوتھے ڈاکٹر عبدالحق انصاری، پانچویں جلال الدین عمری اور چھٹے موجودہ امیر انجینئر سید سعادت اللہ حسینی ہیں۔ ان میں ہر امیر نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کیا جس سے جماعت آگے بڑھتی رہی۔ موجودہ امیر حسینی صاحب بھی کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔

یہ ایک اصولی جماعت ہے

جماعت اسلامی ہند ایک اصولی جماعت ہے۔ سیاسی جماعتوں سے اس کے اختلافات اصولی ہیں۔ مسلم جماعتوں کی مخالفت نہیں کرتی۔ ارکان کو ہدایت ہے کہ کسی مسلم جماعت کی مخالفت نہ کریں جس بات پر اختلاف ہے اسے احسن طریقے سے وقت ضرورت ظاہر کریں۔ دوسری جماعتیں بھی بالعموم جماعت کا احترام کرتی ہیں۔ جو ارکان موجودہ جماعت سے علیحدہ ہوتے ہیں وہ بھی جماعت کا احترام کرتے ہیں۔ یہ جماعت کی ایک خصوصیت ہے۔ قیام جماعت سے اب تک کی کئی اہم علمی شخصیات جماعت سے علیحدہ ہوئیں۔ کئی ایک کو جماعت سے علیحدہ کیا گیا لیکن ان میں سے کسی نے علانیہ جماعت کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ کہا بھی تو احترام کی حدود میں۔ جو ارکان، جماعت سے الگ ہوتے ہیں ان میں سے اکثر جماعت سے بعد میں بھی وابستہ ہیں۔ اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ کوئی کچھ کہہ دے تو جماعت کا دفاع کرتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں ایک رکن کو جماعت سے اس لیے علیحدہ کر دیا گیا کہ وہ جماعت اور مولانا مودودیؒ کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتے تھے۔ کوئی کچھ کہہ دے تو اس کے خلاف بہت کچھ کہہ جاتے۔ مقامی جماعت نے ان کی اصلاح کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں سدھرے۔ مجبوراً جماعت نے ان کو نکال دیا۔ مگر ان کی عادت نہیں گئی بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔ جماعت پر حکومت نے تین بار پابندی لگائی لیکن تینوں ہی بار بے بنیاد بلکہ مضحکہ خیز، جس کا اعتراف اس وقت کی حکومتوں کے وزیروں نے بھی کیا تھا۔ حکومتوں سے جماعت کا اختلاف بھی اصولی ہوتا ہے۔ جماعت کے حالیہ اجتماع حیدرآباد سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ جماعت اپنی روِش اور موقف پر قائم ہے اور اپنے طریقے سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ آج امت مسلمہ کے لیے سخت حالات ہیں۔ سبھی جماعتیں ان کا مقابلہ کر رہی ہیں، جماعت ان کے ساتھ ہے۔ جماعت امت مسلمہ ہند کے مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ جماعت ملک کے تمام شہریوں کی خیر خواہ ہے اور انہیں متحد دیکھنا چاہتی ہے۔ حکومت اور سیاسی پارٹیوں سے حسب ضرورت گفت و شنید کرتی رہتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی جماعت اسلامی ہند کو قائم و دائم اور مضبوط و مستحکم رکھے۔ آمین۔