خبرونظر
پرواز رحمانی
سنگھ کا ایک اور کھیل
یہ جو موہن بھاگوت ہیں وہ دلچسپ آدمی ہیں۔ وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی سنسنی خیز بات کہتے رہتے ہیں جس سے لوگوں میں متنازع بحث چھڑ جاتی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ذات پات اور انسانی برادریوں سے متعلق کچھ ایسی باتیں کہہ دیں کہ پورے ملک کا ماحول گرم ہو گیا۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ برہمن اور پنڈت برادریاں بھی ان سے خفا ہو گئیں۔ جبکہ شودر طبقات بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ ناگپور میں سنت تلسی داس اور ان کے رام چرترمانس سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانوں میں جاتیاں اور اونچے و نچلے طبقات بھگوان نے نہیں پنڈتوں نے بنائے ہیں۔ اس پر برہمن، پنڈت اور خود آر ایس ایس کے بہت سے لوگ بری طرح بدحواس ہوگئے۔ چاروں طرف سے ان پر تنقید ہونے لگی۔ سنگھ کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بھاگوت نے صرف پنڈتوں کے لیے یہ بات کہی ہے۔ برہمنوں کو انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ برہمن ایک ذات ہے، پنڈت ذات نہیں ہیں، پنڈت یعنی ودوان کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن عام طور سے پنڈت برہمنوں کو ہی کہا جاتا ہے۔
بحث قدیم ہے
اتر پردیش میں یہ بحث پہلے سے گرم ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ایک لیڈر سوامی پرساد موریہ نے ایک بیان میں سنت تلسی داس کی کتاب رام چرترمانس کے حوالے سے کہا تھا کہ شودروں اور تمام عورتوں کے بارے میں انتہائی غلط اور ذلیل باتیں کہی گئی ہیں۔ اس پر بحث جاری ہی تھی کہ اب سنگھ کے لیڈر موہن بھاگوت نے اپنے مزاج کے مطابق متذکرہ بالا باتیں کہہ دی ہیں۔ اس سے آدی واسیوں اور بچھڑے طبقوں میں جان پڑ گئی ہے، ان کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ ذات پات کا نظام ختم ہونا چاہیے۔ ادھر برہمن طبقہ موہن بھاگوت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہہ رہا ہے۔ آر ایس ایس کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بھاگوت جی نے ملک کے موجودہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک نیا مسئلہ چھیڑا ہے۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ سنگھ جاتیوں کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جاتیوں کو زندہ و پائندہ رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے بہت کچھ کرتا رہا ہے۔ اپنے بیان پر ان کا کہنا ہے کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں، انہیں بھول جانا چاہیے۔ اب نہیں نیا بھارت بنانا ہے، یہ کام تمام ہندؤوں کو متحد کرکے ہی کیا جا سکتا ہے ۔
ہندو کون ہیں
تو یہ اہل ہنود کے اندر ذات پات اور پیشہ ور برادریوں کا جھگڑا ہے اور بہت قدیم ہے۔ ماضی میں بھی یہ تنازع اٹھتا رہا ہے۔ متعین طور پر آج تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ ہندو کون ہے۔ کئی دانشوروں اور اہل علم نے اس پر بارہا غور کیا لیکن فیصلہ نہیں کر سکے۔ جب یہی طے نہیں کیا جا سکا کہ ہندو کون ہے یا کیا ہے تو اس اندر پائی جانے والی ذاتوں کا تعین کیسے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے اندر ورن ویوستھا یعنی کاسٹ سٹم بہت مضبوط ہے اسے سبھی مانتے ہیں، وہ لوگ بھی جو ورن آشرم کے خلاف ہیں اپنے گھروں میں ایک برہمن پنڈت ضرور رکھتے ہیں جو ان کی تمام دھارمک روایات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ بعض واقف کار بتاتے ہیں کہ ہندومت کی مضبوطی یعنی اس کے ابھی تک قائم رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ اس کے برعکس کچھ دانشوروں کا سوال ہے کہ جو لوگ ہندو ورن آشرم سے بیزار ہیں، اسے قبول نہیں کرتے تو اس سے اپنے آپ کو علیحدہ کیوں نہیں کرلیتے؟ انہیں اس ویوستھا سے وابستہ رہنے پر کون مجبور کرتا ہے؟ سوامی پرساد موریہ جیسے لوگ یہ اقدام کیوں نہیں کرتے ؟