خبرونظر

پرواز رحمانی

جب چندر چوڑ آئے
آٹھ سال قبل جب ڈی وائی چندر چوڑ دلی آئے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پھر چھ سال بعد وہ چیف جسٹس بنائے گئے تو ہر طرف ان کا چرچا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں انہوں نے واقعی کچھ فیصلے تاریخی نوعیت کے کیے جس سے ان کی شہرت بڑھ گئی۔ مگر کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل ان کی ہوا اکھڑ جائے گی اور انہیں اس بات کی فکر لاحق ہو گی کہ تاریخ میں وہ کس حیثیت سے یاد کیے جائیں گے اور مستقبل کا مورخ ان کے بارے میں کیا لکھے گا؟ ویسے کچھ لوگ چندر چوڑ کے بارے میں پہلے ہی سے کچھ اندیشے رکھتے تھے۔ سبکدوشی سے چند روز قبل کچھ ایسے واقعات ہوئے اور انہوں نے کچھ فیصلوں پر ایسے بیانات دیے جن سے ان کی ناموری کا گراف اچانک گر گیا۔ جسٹس کے بارے میں موجودہ بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے اچانک ان کے گھر پہنچنے سے۔ یہ گنپتی پوجا کا موقع تھا۔ وزیر اعظم پہنچے تو چندر چوڑ پوجا کی رسم میں مصروف تھے۔ وزیر اعظم کو دیکھا تو جسٹس نے پوجا کی تھالی ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ پھر وہ بھی ان کے ساتھ پوجا کی رسم میں مصروف ہوگئے۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوسکی کہ جسٹس نے پی ایم کو بلایا تھا یا وہ از خود ان کے گھر پہنچ گئے تھے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں ہیں اور دونوں میں وزن ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ حفاظتی عملہ بھی تھا لیکن وہ گھر کے باہر رک گیا تھا۔ اس واقعے نے ملک کے قانونی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی، ہر کوئی اپنے نقطہ نظر سے اس پر بولنے لگا۔ سب سے مضبوط تنقید خود وکیلوں کی طرف سے ہوئی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بہت سے وکیلوں کا خیال ہے کہ واقعہ دونوں کی رضامندی سے پیش آیا۔ سبکدوشی کے بعد چندر چوڑ بھی حکومت سے کسی منصب کی توقع رکھتے ہیں، منصب چاہتے ہیں۔

ایک عجیب و غریب بات
سبکدوشی کے قریب چندر چوڑ نے سب سے عجیب و غریب بات یہ کہی کہ ایودھیا مقدمے کا فیصلہ میں نے بھگوان کے حکم پر کیا تھا۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کروں بالآخر میں نے بھگوان سے رجوع کیا اور اس نے مجھے راستہ بتایا۔ چندر چوڑ کی اس بات پر پوری وکیل برادری، بار اسوسی ایشن یا کونسل، سِول سوسائٹی کے ممبران اور تمام پڑھے لکھے لوگوں نے سخت تبصرے کیے ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں کہ جسٹس کی یہ بات قانون کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کو ایک طاقت ملی گئی جو آئین کی جگہ منواسمرتی لانا چاہتے ہیں۔ ایودھیا کے فیصلے کی کمیٹی میں چندر چوڑ نہیں تھے لیکن ان کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ انہوں نے ہی لکھا تھا۔ ویسے بھی عدالت عظمیٰ کے ہر فیصلے کی اطلاع چیف جسٹس کو دی جاتی ہے۔ ایودھیا کے فیصلہ کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ کمیٹی پانچ ججوں پر مشتمل تھی، پانچوں مختلف مذاہب سے تھے۔ ان پانچوں کو حکومت نے کسی نہ کسی طرح سے نوازا ہے۔ اب شاید چندر چوڑ کی باری ہے۔ ویسے بھی مساجد کے سلسلہ میں چندر چوڑ کا طرز مسلمانوں کے حق میں کبھی نہیں رہا۔ بنارس کی گیان واپی مسجد پر ان کا رویہ عجیب و غریب رہا۔ جاتے جاتے ایک فیصلہ مسلم یونیوسٹی علی گڑھ کے بارے میں سنا تو دیا لیکن وہ بھی حتمی نہیں ہے۔ اب وہ نئے چیف جسٹس کھنہ کے پاس جائے گا۔ یعنی ان کے زیر نگرانی اس کی سماعت ہوگی۔ اس سے قبل یو پی کے اسلامی مدارس کے بارے میں بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ مناسب ترین تھا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے 2004 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ جسٹس چندر چوڑ نے اسے بحال کر دیا۔ غرض ایسے بہت سے فیصلے ہیں جنہیں مثبت بھی کہا جا سکتا ہے اور منفی بھی۔ یہ مسئلہ ہر چیف جسٹس کو پیش آتا ہے۔ ہر چیف جسٹس کو اتار چڑھاو سے گزرنا پڑتا ہے۔

بحث جاری ہے
میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ جسٹس چندر چوڑ کو تاریخ کس حیثیت سے یاد رکھے گی۔ اکثر لوگ اس کا منفی پہلو بیان کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں بھی اس پر تبصرے آئے ہیں۔ بیرونی دنیا میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر خاص طور سے ہوا تھا اور اب بھی ہوتا ہے۔ وہ ہے رام جنم بھومی اور بابری مسجد۔ ہر چند کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس گوگوئی کے دور میں پیش آیا تھا لیکن چندر چوڑ اس وقت سپریم کورٹ میں جج کی حیثیت سے موجود تھے، وہ اس پر کبھی کچھ نہیں بولے۔ بعض اوقات ان کے جوابات نرالے ہوتے ہیں۔ مثلاً عمر خالد کی رہائی کے بارے میں ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ نے کچھ لوگوں کو تو ضمانت دے دی عمر خالد کو کیوں نہیں دی؟ اس کی رہائی کیوں نہیں ہوئی؟ چندر چوڑ نے جواب میں بتایا کہ اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بتاوں گا۔ چندر چوڑ خود بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنے بارے میں وہ خوب جانتے ہیں۔ اپنی فکر مندی کا جواب بھی ان کے پاس ہے کہ اپنے دور میں سپریم کورٹ میں انہوں نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا۔ ایودھیا کی حقیقت بھی وہ خوب سمجھتے ہیں کہ کتنا عجیب و غریب فیصلہ تھا۔ سارے دلائل مسلم فریق کے حق میں ہیں لیکن فیصلہ آیا ہے ہندو فریق کے حق میں۔ اپنے مستقبل کا نقشہ بھی ان کے ذہن میں ہوگا۔ دعا کرنی چاہیےکہ جو کوتاہیاں ان سے ہوئیں وہ ان کے بعد آنے والوں سے نہ ہوں۔ انہوں نے اپنے دور میں حکومت کو پریشان کرنے والا کوئی بڑا فیصلہ نہیں سنایا۔ وہ ملک کی سیاست کا رنگ دیکھ رہے تھے اور جانتے تھے کہ سبکدوشی کے بعد مجھے بھی اسی رنگ میں رنگ جانا ہے۔ غرض وکیلوں اور قانون جاننے والوں کے لیے جسٹس چندر چوڑ کی کارکردگی سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، اور لوگ ضرور سیکھیں گے بھی۔