خبرونظر

پرواز رحمانی

بھارت کی تصویر دنیا میں

ابھی حال ہی میں امریکہ کے ایک بین الاقوامی ادارے نے حقوق انسانی سے متعلق اپنی ایک رپورٹ میں دنیا میں اقلیتوں کی حالت سے متعلق کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت پر بہت ظلم کیا جاتا ہے۔ ان کے عام حقوق چھینے جاتے ہیں اور ان کے مذہبی اداروں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ حکومت ہند نے اس رپورٹ کو ہمیشہ کی طرح مسترد کر دیا اور جواب میں وہی روایتی باتیں کہیں جو عام طور سے کہی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی رپورٹ میں کوئی غلط یا بے بنیاد بات نہیں کہی گئی تھی۔ کچھ ریاستوں بالخصوص اتر پردیش میں مظالم کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ ریاستی حکومت نے ریاست کے تمام مدارس کی جانچ شروع کر رکھی ہے کہ ان میں کتنے رجسٹرڈ ہیں اور کتنے نہیں ہیں۔ حالانکہ مدارس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے اور 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی سرکاری کارروائی پر روک کا حکم بھی دیا تھا اور یو پی کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدارس کے خلاف جانچ کی کارروائی کو روک دے۔ لیکن اسی دن متعلقہ محکمہ نے غیر منظور شدہ مدارس کی تعداد کا پتہ لگانے کا حکم اپنے افسروں کو جاری کیا۔ 4191 مدارس کی پہلے ہی جانچ ہو چکی ہے، اب نئے حکم کے مطابق ان مدارس کی دوبارہ جانچ کی جا رہی ہے۔ جانچ کے خلاف جمعیۃ العلما نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے جانچ پر روک لگانے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس کے باوجود جانچ کا حکم دیا گیا۔ رجسٹرڈ شدہ مدارس میں ہندو بچے بھی پڑھتے ہیں۔ جب ایک بار انکوائری ہوچکی ہے تو دوبارہ جانچ کی ضرورت حکومت کو کیوں پیش آئی؟ یہ وزیراعلیٰ یوگی ہی بہتر طور پر بتاسکتے ہیں۔ یہاں ذکر امریکی رپورٹ کا ہے۔ مدارس کی جانچ وزیر اعلیٰ یوگی کے حکم پر ہو رہی ہے۔ یوگی کو مسلمانوں کے خلاف کارروائی میں بہت لطف آتا ہے۔ وہ مودی کا متبادل بننے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ آر ایس ایس مودی کو ہٹانے کا فیصلہ کرے تو ان کا مقام حاصل کرسکیں۔ امریکہ میں یہ بات عام طور سے جانی جاتی ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں، بالخصوص مسلم اقلیت پر زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ اسی سالانہ رپورٹ میں دوسرے ملک کی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذکر بھی ہے مثلاً پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما اور نیپال وغیرہ۔ لیکن ہندوستان کا ذکر خاص طور سے کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ہر سال جاری کی جاتی ہے۔

پی ایم نے کیا کہا تھا

ایک بار وزیر اعظم مودی امریکہ گئے تو امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک پریس کانفرنس بلائی جس سے ان کو بھی خطاب کرنا تھا۔ یہ وزیر اعظم کی پہلی اور نام نہاد پریس کانفرنس تھی جس میں صرف دو سوال کیے جانے تھے۔ وزیر اعظم سے ایک خاتون امریکی جرنلسٹ نے یہی سوال کیا کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے خلاف زیادتیوں کی رپورٹیں ملتی ہیں۔ وزیر اعظم نے جواب یہ دیا کہ ہندوستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے جہاں بہت سے فرقے آباد ہیں ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جاتی اور بس۔ جرنلسٹ کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد بھی امریکہ سے کئی رپورٹیں آئیں اور آتی رہتی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ہمیشہ تردید کی جاتی ہے۔ زیادتی اور بدسلوکی کے واقعات پہلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن موجودہ حکومت نے اس سلسلہ میں نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس میں مرکزی حکومت اور وزیر اعظم کا اپنا حصہ ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ تین چار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی لگے ہوئے ہیں۔ 2014 میں وزیر اعظم مودی کی پہلی حلف برداری کے چند روز بعد مغربی یو پی میں محمد اخلاق نامی ایک مسلمان شخص کو ایک پرتشدد ہجوم نے گھر میں گھس کر اس لیے جان سے مار ڈالا کہ فسادیوں کے مطابق اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا۔ فسادیوں کے مطابق اس کے فریج سے گوشت برآمد بھی ہوا تھا۔ لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ کیا محمد اخلاق نے واقعی گائے کا گوشت استعمال کیا تھا؟ اس کے بعد بی جے پی اور اس کے حمایتیوں نے خوب ہنگامہ کیا اور سر راہ قتل کے واقعات بار بار ہونے لگے۔ راہ چلتے افراد کے ٹفن چیک کیے جانے لگے۔ بسوں اور ریل گاڑیوں میں مسافروں کے سامان کی تلاشی لی جانے لگی۔ خواتین کو بھی نہیں چھوڑ اگیا۔ لیکن وزیر اعظم نے ان واقعات کی مذمت نہیں کی۔ انہوں نے محمد اخلاق کے واقعہ پر کچھ نہیں کہا۔ جب کئی دن گزر گئے تو ارون جیٹلی کو آگے کر دیا۔جیٹلی نے وزیر اعظم کی جانب سے بیان دیا کہ وزیر اعظم نے محمد اخلاق کے واقعے کی مذمت کی ہے اور فسادیوں کو خبردار کیا ہے کہ آئندہ ایسی حرکات نہ کریں۔ لیکن واقعات برابر ہوتے رہے کیوں کہ لوگ جانتے تھے اور کہتے بھی تھے کہ ان واقعات کی بنیاد تو خود وزیر اعظم نے اس وقت ڈالی ہے جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔

نچلی ذاتیں بھی زد میں

اسی دوران ایک مردہ مویشی کی کھال اتارنے پر نچلی برادری کے کچھ لوگوں کے خلاف واقعات بھی ہونے لگے۔ اس طرح دلت برادری میں یہ بات مشہور ہونے لگے کہ اونچی ذات والوں کی یہ حکومت دلتوں اور کمزور طبقات کے بھی خلاف ہے۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے منفی باتوں میں بہت نام کمایا ہے۔ مسلمانوں اور ان کی بستیوں پر بلڈوزر چلواکر ان کے مکانات منہدم کرنا، الیکشن میں 80 اور 20 کی لڑائی مشہور کرنا، مسلمانوں کے خلاف بات بات پر اشتعال انگیزی کرنا ، ان کی آبادی کا ہوّا کھڑا کرکے اسے ملک کے لیے خطرہ قرار دینا، یہ اور اسی قبیل کے کچھ دوسرے کاموں میں یوگی کو مہارت حاصل ہے۔ ویسے ان میں کچھ کام مودی اور شاہ کے ایجاد کردہ ہیں۔ اس میدان میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما بھی ماہر ہیں۔ وہ آئے دن اشتعال انگیز باتیں کرتے ہیں۔ ابھی بیان دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہم آسام پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ وہ بھی دوسرے مودی بننا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہندوستان کو کافی بدنام کر رکھا ہے۔ امریکہ وغیرہ کی رپورٹیں ان لوگوں کی سرگرمیوں اور اشتعال انگیزیوں سے بنتی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی، رپورٹوں کی تردید کا کام تو پابندی سے کرتے ہیں لیکن ان کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ مین اسٹریم میڈیا ان سرگرمیوں اور اشتعال انگیزیوں کی عوام کو ہوا بھی لگنے نہیں دیتا۔ لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ اس کے بہت سے چینلوں سے یہ منفی خبریں بھی دنیا تک پہنچ جاتی ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ ان سرگرمیوں پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے حتی الامکان بچتے ہیں۔ ملک کی مسلم قیادت بہت ذمہ دار ہے۔ نوجوانوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ وہ قانون اور مذاکرات کی بات کرتی ہے۔ مسلم قائدین سے اکثر یہ سول کیا جاتا ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا۔ جمعیۃ علما ہند، جماعت اسلامی ہند، مجلس اتحاد المسلمین اور بہت سے منفرد لیڈر ہمیشہ مسلمانوں کو ضبط و تحمل کی تلقین کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے۔ مسلمانوں کا یہ ضبط و تحمل ضرور رنگ لائے گا۔ (انشا اللہ)