خبرونظر

پرواز رحمانی
ہریانہ میں کیا ہوا
ہریانہ اور جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کا بہت شور و غوغا تھا۔ ہریانہ میں تو راہول گاندھی اور ان کی کانگریس نے بہت مضبوط پوزیشن بنالی تھی پورا میڈیا بیک آواز کہہ رہا تھا کہ کانگریس حکومت بنالے گی۔ تمام پارٹیاں حتیٰ کہ حریف پارٹی بی جے پی کے لوگ بھی تسلیم کر رہے تھے اس بار کانگریس کی ہوا ہے۔ بہت سے لوگ اسے آندھی سے آگے طوفان اور کچھ اس سے بھی اوپر سونامی بتارہے تھے۔ عام لوگوں کی زبان پر بھی راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کی یاتراوں اور جلوسوں کے تذکرے تھے۔ تمام چینلس کے اینکر اور رپورٹر صرف کانگریس کی بات کررہے تھے۔ بی جے پی کا سپڑا صاف ہونے والا ہے۔ کوئی ایک شخص بھی نہیں ملا جس نے بی جے پی کے جیتنے کی بات کہی ہو۔ جموں و کشمیر کا حال بھی یہی تھا۔ وہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی فتح کی بات کہی جارہی تھی لیکن یہ لوگ یہ بات بھول رہے تھے کہ بی جے پی آر ایس ایس کی تربیت یافتہ پارٹی تھی، اس کے پاس الیکشن جیتنے کے متعدد ہتھکنڈے تھے۔ درست ہے کہ ای وی ایم اسی کے چارج میں تھی اور اس سے وہ کام بھی لیے جا سکتے تھے جن کے بارے میں کانگریس اور دیگر پارٹیاں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ ہریانہ میں یہ کھیل وہ بہت آسانی کے ساتھ کھیل سکتی تھی چنانچہ اس نے کھیلا بھی یہی۔ تبدیل شدہ وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے پولنگ کے بعد تیسرے دن یعنی نتائج کے اعلان سے ایک دن قبل شام کو پریس کانفرنس بلاکر صاف صاف اعلان کیا ہم حکومت بنارہے ہیں، ہم نے تمام انتظامات کرلیے ہیں۔ بہت سوں نے اسے وزیر اعلیٰ کا بڑ بولا پن سمجھا لیکن جو لوگ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہتھکنڈوں سے واقف تھے وہ سمجھ گئے کہ پارٹی نے اس بار کوئی بالکل نیا کھیل کھیلا ہے۔ ای وی ایم تو بدنام ہوگئی لیکن پارٹی نے اس سے کام لینا بند نہیں کیا۔ اس بار احتیاط بھی حد درجے کی گئی تھی۔ مودی اور شاہ پولنگ کے آخری مرحلے میں ہی دہلی سے باہر چلے گئے۔ پی ایم ممبئی گئے تھے مہاراشٹرا میں ہونے والے الیکشن کا جائزہ لینے کے لیے تاکہ ہریانہ پر کسی کو شبہ نہ ہو۔ الیکشن کمیشن نے بھی حکم راں پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔ کئی کئی گھنٹے مشینیں بند رہیں۔ جیتنے والی سیٹوں پر مارجن بہت کم بتایا گیا۔ تین چار سو پانچ سو مشکل سے ایک ہزار۔ ووٹ خریدنے کا بازار گرم تھا۔ ایک ووٹ کی قیمت ایک سو سے تین ہزار روپے فی ووٹ رکھی گئی۔ پورے خاندان کو دس دس ہزار روپے دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔

حکم راں پارٹی کے ہتھکنڈے
بی جے پی کے لیے ہریانہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ وہ ریاست میں ہر قیمت پر حکومت بنانا چاہتی تھی۔ ہریانہ میں اگر وہ ہار جاتی تو مودی اور شاہ کا وہ پورا کھیل بگڑ جاتا جو ان دونوں نے گزشتہ دس سال میں کھڑا کیا تھا۔ دونوں کو گجرات لوٹ کر اپنی زمین بنانی پڑتی۔ ای ڈی، الیکشن کمیشن، سی بی آئی، کارپوریٹر وغیرہ کے ذریعہ جتنے کالے کام کیے ہیں سب کی پول کھل جاتی۔ اڈانی کو جو کچھ دیا ہے اور جو کچھ لیا ہے وہ سب سامنے آجاتا۔ ویسے سارے غلط کام دوسرے لوگوں کی آڑ میں کیے گئے لیکن پھر بھی حقائق سامنے آکر رہتے۔ اس لیے مودی اور شاہ یہ ریاستی الیکشن ہر حال میں جیتنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ دونوں نے اپنی زندگی کا ہر حصہ داو پر لگا رکھا تھا۔ ویسے دونوں کے مابین بعض باتوں میں اختلافات بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس خود مودی کے طریقہ کار کے خلاف تھی۔ بی جے پی کے اندر بھی کچھ لیڈر ہیں جو مودی کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے نمایاں نام نتن گڈکری کا ہے۔ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں آر ایس ایس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ غرض بی جے پی کے اندر بھی بہت کچھ مودی کے خلاف ہیں۔ خفیہ اور ظاہر بڑی قوتوں کے باوجود مودی اندر سے خوف زدہ ہیں۔ جہاں تک راہل گاندھی اور کانگریس کا سوال ہے ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہریانہ میں مودی نے اپنے ہتھکنڈوں اور خفیہ طاقتوں کی مدد سے اپنی اکثریت بنالی لیکن اس میں پائیداری نہیں ہے۔ راہل اور اکھلیش یادو دوبارہ اسی طرح اٹھ رہے ہیں جس طرح لوک سبھا کے الیکشن میں اٹھے تھے۔ مودی کے پاس راہل گاندھی کو دبانے کے لیے اب بھی پرانا ہتھکنڈہ ووٹ بینک کا ہے۔ مودی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ راہل گاندھی کا ووٹ بینک مسلمان ہیں۔ وہ ہندووں سے ان کی جائیدادیں چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں۔ ابھی ہریانہ کی نام نہاد فتح پر بھاشن دیتے ہوئے بھی مودی نے یہی کہا کہ راہل گاندھی یہ سارا کام اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ ادھر آر ایس ایس والے دلتوں کو اپنے ساتھ لینا چاہتے ہیں۔ ناگپور میں 12 اکتوبر کو وجے دشمی بھاشن میں اسی پر زور دیا گیا کہ اب دلتوں کے ساتھ قربت کرنا چاہیے۔

ای وی ایم
ہریانہ انتخابات کے بعد راہل گاندھی نے بہت زیادہ کچھ نہیں کہا صرف اپنے مستقبل کے کام پر سوچتے رہے۔ البتہ ایک نیا کام انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیا وہ ہے ای وی ایم سے نمٹنے کا۔ ہریانہ کے نتائج پر کانگریس نے الیکشن کمیشن کو با ضابطہ بتا دیا ہے کہ ای وی ایم میں دھاندلی کی گئی ہے۔ کاونٹنگ کے ابتدائی دو ڈھائی گھنٹوں میں کانگریس کی نشستیں 70 تک پہنچ گئی تھیں اور بی جے پی کی 25 کے آس پاس تھیں۔ یہ بیالٹ پیپر کے ووٹ تھے جو ہریانہ کے ان ووٹروں نے بھیجے تھے جو ہریانہ سے باہر سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ای وی ایم کی مشینوں سے گنتی شروع ہوئی، تھوڑی ہی دیر میں نقشہ بدل گیا۔ بی جے پی ایک دم اوپر ہوگئی اور کانگریس کے ووٹ نکلنا بند ہوگئے۔ ایک مشین میں صرف ایک ووٹ نکلا جو کانگریس کو ہرانے والا تھا۔ الیکشن کے بعد کانگریس کے ایک وفد نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی تو صرف یہ کہا گیا کہ ہم انکوائری کریں گے۔ مگر کمیشن سے وعدہ وفائی کی امید نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس پہلے ہی ای وی ایم کے خلاف ہزاروں شکایتیں درج ہیں جو مدھیہ پردیش سے آئی ہیں۔ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کانگریس کے دور میں آئی تھی۔ اس وقت بی جے پی نے اس کی مخالفت کی تھی، پھر جتنے سال کانگریس نے اس سے کام لیا بی جے پی مخالفت کرتی رہی لیکن اب دس سال سے وہ اس مشین کی سب سے بڑی حمایتی بن گئی ہے۔ آج کا الیکشن کمیشن بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ اس کے سارے فیصلے حکومت اور حکم راں پارٹی کے حق میں ہوتے ہیں۔ اس لیے کانگریس نے پہلے تو ہریانہ انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اب اس کے خلاف محاذ قائم کرلیا ہے اور بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی ہے۔ ای وی ایم سے بہت سے ووٹروں کو اول روز سے شکایت ہے۔ سِول سوسائٹی کے بہت سے ممبر اور میڈیا کے لوگ اس سے پہلے دن سے بے زار ہیں۔ اندرا گاندھی کی حکومت نے بھی اس کا استعمال کیا لیکن اس سے کوئی غلط کام نہیں لیا۔ غلط استعمال صرف مودی کی حکومت نے لیا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف شکایتیں بڑھ گئی ہیں۔ اب جبکہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی میدان میں آگئی ہے امید ہے کہ ان کوششوں کا خاطر خواہ نتیجہ نکل کر رہے گا۔