خبرونظر

پرواز رحمانی
ذات پات اور فرقہ واریت کا مسئلہ
ملک میں ذات پات اور فرقہ واریت کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ یہ بیماری مغلوں کی حکومت جانے اور انگریزی حکومت آنے کے بعد شروع ہوئی۔ انگریزوں کی پالیسی تھی کہ چونکہ یہاں ہندو اور مسلمان دو فرقے ہیں لہذا حکومت قائم رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے ان دونوں کو آپس میں لڑانا ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے کبھی ہندوؤں کو تو کبھی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا شروع کیا، پھر یہ لڑائی بڑھتی گئی۔ چونکہ تعداد میں ہندو زیادہ تھے اس لیے انہوں نے اپنی برتری تھوپنا شروع کردی۔ مسلمانوں کو بات بات پر پریشان کرنا مسجدوں کے سامنے باجے بجانا، مسجد پر گلال پھینکنا، قبرستانوں اور مزاروں کی بے حرمتی کرنا۔ مسلمان اس کے جواب میں کچھ نہیں کرتے تھے۔ علما اور قائدین کبھی کبھی بیان دے دیتے تھے۔ جب معاملہ بڑھ گیا تو مسلمان بھی اپنے دفاع میں جواب دینے لگے۔ پھر ہندو مہا سبھا میدان میں آئی، کہنے کو یہ سیاسی پارٹی تھی لیکن مسلمانوں سے دشمنی رکھتی تھی۔ بعد میں اس نے انگریزی حکومت کے ساتھ دوستی کرلی اور صرف مسلمانوں کے پیچھے پڑگئی۔ انگریزی حکومت سے اس کی دشمنی بس دکھاوے کی تھی۔ حکومت کے ساتھ ہندو مہا سبھا کا یہ کھیل چل ہی رہا تھا کہ 1935 میں ہیڈگیوار نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے نام سے ایک سنگھٹن بنا لیا۔ یہ اسے ہندوؤں کی اصلاحی تنظیم کہتے تھے لیکن اس نے مسلمانوں کو نشانہ بناکر پریشان کرنا شروع کر دیا۔ انگریزی حکومت سے اس کی بھی دوستی ہوئی۔ سنگھٹن کے دوسرے سرسنچالک گرو گولوالکر نے مراٹھی میں ایک کتاب لکھی لیکن اس کا نام انگریزی میں ”بنچ آف تھاٹس“ رکھا گیا۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”یہ درست ہے کہ آج کے مسلمان بھارت میں پیدا ہوئے لیکن انہیں ہندوؤں کے برابر کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ ان کا دھرم دوسرا ہے“۔ اس کے بعد سنگھ نے کتابیں چھاپنا اخبار نکالنا شروع کیا۔ سنگھ کی سیکڑوں ضمنی تنظیمیں ہیں۔ہندو سماج کے ہر حصے پر اس کا اثر سے ہے۔ ایک تنظیم اس کی بھارتیہ جن سنگھ تھی جو 1914 میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس پارٹی کا اب تک کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں اور نچلی ذاتوں سے دشمنی کرکے ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ لہذا وہ یہ کام کر رہی ہے۔

مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا
فی زمانہ یہ وبا بہت بڑھ گئی ہے۔ جب سے بی جے پی کی موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے یہ محاذ سنبھال لیا ہے۔ ان کی پارٹی کے چھوٹے بڑے لیڈر اور ورکرز مسلمانوں کو سر عام جان سے مار دیتے ہیں اور یہ لوگ تماشا دیکھتے ہیں۔ ان کے وزرائے اعلیٰ چوروں اور ڈیکیتیوں کے نام پر مسلمانوں کو سر بازار قتل کروادیتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے ریاست سے چوروں اور ڈاکوؤں کا صفایا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ ان بیانات پر خوش ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے مکانات منہدم کروادیتے ہیں ان کی زمینیں چھین لیتے ہیں۔ اشتعال انگیز گالیاں دیتے ہیں۔ پوری مسلم قوم کا صفایا کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کا طرز عمل آج بھی ویسا ہی ہے جیسا سو سال پہلے تھا۔ وہ جوابی کارروائی نہیں کرتے۔ بس کبھی کبھی عدالتی کارروائی کرتے ہیں۔ مسلم علما اور لیڈروں کے پاس بھی عام مسلمان جاتے ہیں شکایت کرتے ہیں۔ وہ انہیں سمجھاتے اور ضبط و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پوری ہندو قوم دشمن نہیں ہے۔ حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ حال ہی میں ایک اجتماع مشرقی یو پی کے سرائے میر میں مسلمانوں کے خلاف منفی رویہ، اسباب و علاج کے عنوان سے منعقد ہوا تھا۔ اس میں علمائے کرام اور دانشوروں نے حصہ لیا۔ اس کا محاضرہ مشہور صحافی اسد مرزا نے کیا۔ انہوں نے بہت کام کی باتیں بتائیں، کہا کہ حالات بگاڑنے کا مقصد محض مسلمانوں کو نقصان پہچانا نہیں، دین اسلام کو ختم کرنا ہے۔ آر ایس ایس کی کارروائی سے ہندو بھائی بھی ناراض ہیں۔ اسلاموفوبیا کی اصطلاح انہوں نے ایجاد کی تھی لیکن اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا جیسا کہ مرزا صاحب نے بتایا کہ اس محاضرے کی پوری رپورٹ سامنے نہیں ہے لیکن اجتماع کا عنوان ہی بتا رہا ہے کہ اس میں کیا کارآمد باتیں ہوئی ہوں گی۔ مسلمان ایسے کسی موضوع پر جب بھی بات کرتے ہیں، سنجیدگی اور متانت کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ اشتعال انگیزی نہیں کرتے، نہ دھمکیاں دیتے ہیں، نہ بدلہ لینے کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف شرارتیں ایک سو سال سے جاری ہیں لیکن انہوں نے ایسی باتیں کبھی نہیں کیں۔

یہ کام ضرور کریں
مدرسۃ الاصلاح میں اسد مرزا نے کہا کہ ملک کے حالات کا مقصد مسلمانوں کو محض نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسلام کو ختم کرنا ہے۔ واقعی انہوں نے تمام غیر قوموں کو دیکھ لیا اور ختم بھی کردیا۔ یہ مسلمان ہیں جو ابھی تک ان کے ہاتھ نہیں آئے۔ دنیا کی دوسری قوموں نے مسلمانوں کو مٹانے کی بہت کوششیں کیں لیکن کام نہیں بنا۔ یہاں بھی پہلے ہندو مہا سبھا نے اور بعد میں آر ایس ایس نے مسلمانوں کو اور ملک کو تاراج کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں کر سکے۔ اب جاکر انہوں نے مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش شروع کر دی ہے تاکہ وہ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ سنگھ کی یہ کوشش ہنوز جاری ہے۔ ختم نہیں ہوں گے تو پریشان تو ہوں گے۔ دبے تو رہیں گے۔ اس کا سب سے اچھا جواب سجھا ٹش اور مہا ٹش ہے۔ بہت سے غیر مسلم محض نا فہمی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے ناراض رہتے ہیں۔ مسلمان انہیں اپنے قول و عمل سے بتائیں کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ سب سے پہلے یہ کوشش مسلمانوں کو خود کرنی چاہیے تھی اور اس وقت کرنی چاہیے تھی جب ہندوستان میں ان کا اقتدار تھا۔ مسلمانوں نے ہندوؤں اور غیر مسلموں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا جو اپنے دھرم کے مطابق تھا وہی رہا اور وہی رکھا گیا۔ ان کے انسانی اور شہری حقوق کی حفاظت کی۔ اس کے ساتھ غیر مسلم بھائیوں کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ دین اسلام کیا ہے۔ اسلام کو منظم طریقے سے غیر مسلمانوں تک پہنچانا چاہیے۔ یہ کام کچھ جماعتیں اور گروپ اب بھی کر رہے ہیں لیکن وہ بات پیدا نہیں ہو رہی ہے۔ بہرحال علماء اور قائدین کو یہ کوشش سلیقے کے ساتھ بڑے پیمانے پر شروع کر دینی چاہیے۔ بدلہ لینے کی بات اچھی نہیں ہے۔ غیر مسلم یہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں بھی سمجھانا چاہیے کہ یہ کام کسی کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ اس سے الٹا نقصان پہنچتا ہے۔ فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ جن پڑھے لکھے اور با سمجھ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی زیادتیوں کا احساس ہے وہ ضرور یہ کام کریں۔ اپنے محلوں، کالونیوں، دکانوں، ہوٹلوں بازاروں، شہروں میں یہ کام ہونا چاہیے۔ یہ کام نتیجہ خیز ہوگا ان شاءاللہ۔ پولیس والوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے گی۔ وکیلوں کو بھی اسلام سمجھانا چاہیے۔ ہر طبقے تک اسلام کا پیغام پہنچنا چاہیے۔