خبرونظر

پرواز رحمانی
حکم رانوں کے لیے نازک وقت
اس بار کم از کم چار پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے چاہیے تھے مگر الیکشن کمیشن نے صرف دو ریاستوں ہریانہ اور جموں و کشمیر میں کروانے کا فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی میدان میں نہیں ہے، وہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اتحاد کرلیا ہے اور وہی نمایاں ہے۔ البتہ ہریانہ میں الیکشن دھوم دھام سے ہورہے ہیں اور یہ دھوم کانگریس اور اس کے لیڈر راہل گاندھی کی ہے۔ مقابلے میں بی جے پی ہے جس کی اس وقت حکومت ہے لیکن بہت کمزور اور ناکارہ دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس کے مقابلے پر وہ کچھ نہیں ہے۔ عوام اس سے بے حد ناراض ہیں۔ اس کے امیدواروں کو حلقوں میں گھسنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ عام طور سے کہا جارہا ہے ہے کہ یہ الیکشن عوام اور حکومت کے درمیان ہیں۔ یہ درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ اپوزیشن پر صرف کانگریس ابھری ہے۔ اس لیے اس کے لیڈر بالخصوص راہل گاندھی جہاں بھی جاتے ہیں جم غفیر اکٹھا ہوجاتا ہے جبکہ وزیر اعظم مودی کے جلسوں میں بھیڑ کم ہوتی ہے۔ ویسے مودی میں بھی پہلی سی حرکت دکھائی نہیں دیتی۔ سرکاری میڈیا جو گودی میڈیا کے نام سے مشہور ہوگیا ہے وہ بھی ہریانہ الیکشن میں دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ پرائیویٹ میڈیا ہر جگہ موجود ہے۔ اس کے اینکرز اور رپورٹرس بہت سرگرم ہیں۔ جس سے بات کرتا ہے وہ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کی برائیاں بیان کرنے لگ جاتا ہے۔ آزاد مبصرین کانگریس کے ممبروں کی متوقع تعداد پچاس سے ستر اور بی جے پی کی دس سے پچیس تک بتا رہے ہیں۔ مبصروں کا عام خیال یہ ہے کہ حکومت کے پاس ووٹروں کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہریانہ کی ایک ریالی میں کچھ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا تو راہل گاندھی کی برائی شروع کردی۔ کسی نے کوئی سوال یا تو کہا صرف مسائل پر بات کرو۔ امیت شاہ نے راہل گاندھی سے سوال کیا کہ راہل بابا! یہ جو تم کسانوں کی بات کر رہے ہوتو یہ بتاو کہ ربیع کی وصولی کیا ہے، خریف کی فصل کیا ہوتی ہے۔ مودی اور امیت شاہ دونوں نے ہریانہ کا انتخآبی دورہ کیا۔ لیکن کسی ایشو پر بات نہیں کی۔ دونوں نے صرف راہل گاندھی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ پہلے پپو کہہ کر راہل کا مذاق اڑاتے تھے اب نا اہل اور ناکام کہہ کر نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

حکومت کوئی مسئلہ نہیں
جبکہ کہا جا رہا ہے مودی اور ان کے ساتھیوں کے پاس الیکشن میں پیش کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے وہ جھوٹ بول بول کر اب تک کا م چلاتے رہے۔ ہاں آج بھی اگر کوئی موضوع ہے تو مسلمانوں سے متعلق جھوٹ بولنے کا۔ مسلمانوں کے خلاف بولنا حکومت کے لوگوں نے کم نہیں کیا۔ اب بھی نئے نئے مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں۔ وقف بل کا مسئلہ گرم ہی تھا کہ اب دہلی کی قدیم شاہی عیدگاہ کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا۔ وہاں قائم قدیم مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اتراکھنڈ میں ایک مسجد منہدم کردی گئی۔ متھرا کی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد کے مسائل ابھی زندہ ہیں۔ رہ رہ کر ان کے نام لیے جاتے ہیں۔ پی ایم نے ملک میں اپنے کچھ گرگے بھی چھوڑ رکھے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازیاں کرتے رہتے ہیں۔ آسام کے سی ایم نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ مسلمانوں کو ہم آسام پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ یو پی کے سی ایم یوگی ریاست سے دہشت گردوں کی صفایا کرنے کی بات ایک خاص انداز میں کہتے ہیں۔ ایک بد زبان ایم ایل اے نے اعلان کیا ہے کہ پولیس کو چوبیس گھنٹوں کے لیے الگ کردو، پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور مرکزی حکومت اس اشتعال انگیزی کا کوئی نوٹس نہیں لیتی اور نہ پہلے کبھی لیا ہے۔ اسی دوران بی جے پی نے ہریانہ اسمبلی کے لیے دو امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے جس پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل پارٹی نے کسی مسلمان کو کبھی کوئی ٹکٹ نہیں دیا۔ ایک جنرل الیکشن کے بعد مودی نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا کہ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ انتخابات مسلمانوں کے بغیر بھی جیتے جاسکتے ہیں۔ کانگریس خواہ مخواہ مسلمانوں کی خوشامد میں لگی رہتی ہے۔ مسلمانوں کے آئینی حقوق کی بات کو یہ پارٹی مسلمانوں کی خوشامد کہتی ہے۔ ایک بڑا جھوٹ مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں پھیلایا جارہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ ملک پر قبضہ کرسکیں۔ یہ بات پی ایم کئی بار مختلف انداز میں کہہ چکے ہیں۔ حال ہی میں پی ایم نے کانگریس پر الزام لگایا تھا کہ وہ ہندوؤں کی دولت لوٹ کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں اور گھس پیٹھیوں کو دے گی۔

عوام باخبر رہیں
اس بار ہریانہ میں دو مسلم امیداور کھڑے کرنا بی جے پی کی کون سی حکمت عملی ہے اور یہ کون لوگ ہیں جو بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں کھڑے ہوگئے۔ درست ہے کہ بی جے پی ایک آزاد پارٹی ہے اور مسلمان بھی آزاد ملت ہیں لیکن بی جے پی نے یہ کام کیوں کیا۔ وہ تو مسلم شہریوں کی علانیہ مخالف ہے پھر دو مسلم شہریوں کو ایک ریاستی اسمبلی میں بھیجنے کی کوشش کا مطلب کیا ہے۔ اس کا تو راجیہ سبھا میں بھی کوئی مسلم ممبر نہیں ہے۔ غلام نبی آزاد کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بی جے پی کی طرف سے راجیہ سبھا میں جاسکتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں ہوا۔ آزاد صاحب شاید اس قدر کھلنا نہیں چاہتے تھے۔ آزاد میڈیا کے کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ بی جے پی ہریانہ میں فساد بھی کرواسکتی ہے۔ پچھلے سال میوات میں جو ہندو مسلم کشیدگی پیدا ہوگئی تھی وہ ایسی ہی کوشش کا نتیجہ تھی لیکن ہریانہ کے ہندووں اور مسلمانوں دونوں نے اس کا جواب اتحاد کے مظاہروں سے دیا۔ ویسے بھی ہریانہ میں ہندو، مسلم فسادات نہیں ہوتے۔ البتہ کچھ مبصرین نے حالات سے باخبر رہنے کا مشورہ دیا ہے، وہ اس لیے کہ ہریانہ میں مودی اور بی جے پی کی حالت نہایت دگرگوں ہے وہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے۔ دوسری کوشش پارٹی کی یہ ہے کہ کانگریس ہریانہ میں برسر اقتدار نہ آئے۔ راہل گاندھی کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کے لیے وہ ان کے خلاف مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے۔ اس کے بعد دو ریاستوں مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں بھی الیکشن ہونے والا ہے۔ وہاں بھی پارٹی کی حالت نازک ہے۔ اگر ان چار ریاستوں میں پارٹی ہار جاتی ہے تو پھر مودی کا زوال یقینی ہے۔ اس لیے پارٹی نے مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں الیکشن کی الیکشن کمیشن کو اجازت نہیں دی ورنہ چاروں ریاستوں میں بیک وقت الیکشن کرانا پارٹی کو مہنگا پڑتا۔ ہریانہ کی حالت سے وہ باخبر تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ہریانہ میں کانگریس کو آدھی سے زیادہ یعنی پچاس سیٹیں بھی مل جائیں تو امیت شاہ وہاں کھیلا کرانے کی کوشش کریں گے۔ ہریانہ میں مودی کی جگہ امیت شاہ نسبتاً مقبول ہیں لیکن پارٹی کے پاس دس سالہ اقتدار کی کارکردگی بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بہرحال یہ وقت سب کے لیے آزمائش ہے۔ سب کو باخبر رہنا چاہیے۔