خبرونظر

پرواز رحمانی

تیسرے دور کے کچھ واقعات
موجودہ حکومت کا یہ تیسرا دور ہے۔ گزشتہ دو حکومتیں بی جے پی کی تھیں، یہ تیسری حکومت این ڈی اے گٹھ بندھن کی ہے جسے مودی اپنی حکومت کہتے ہیں۔ اس حکومت کے پہلے ہی دن وزیر اعظم نے سو دن کا کوئی پلان بنالیا تھا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ عام لوگوں کو اب تک کوئی خاص بات تو اس حکومت کی نظر نہیں آئی سوائے اس کے کہ وزیر اعظم اور ان کے تمام ساتھی اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑگئے ہیں۔ انہیں گالیاں دی جانے لگیں۔ جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، ان کی زبان کاٹنے والے کو گیارہ لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا گیا۔ گالیاں ہر قسم کی دی جارہی ہیں۔ کچھ منفرد واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ایک اہم اور سنسنی خیز واقعہ 18ستمبر کو پیش آیا جب وزیر اعظم مودی بن بلائے چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ کے گھر پہنچ گئے، وہاں اس وقت گنپتی کی پوجا تقریب جاری تھی۔ یہ سوال اسی وقت سے گردش کر رہا ہے کہ کیا وزیر اعظم اپنے طور پہنچے تھے تھے یا انہیں چیف جسٹس نے بلایا تھا۔ ایک بڑے آدمی کے گھر دوسرا بڑا آدمی بن بلایا تو نہیں جاسکتا۔ لیکن چلو دھارمک فنکشن تھا جس میں بلانا ضروری نہیں ہوتا لوگ بن بلائے ہی پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم بعض مبصروں کا خیال ہے کہ چندر چوڑ نے مودی کو کسی نہ کسی شکل میں دعوت دی ہوگی۔ لیکن اکثر کا خیال ہے کہ مودی بن بلائے پہنچے ہوں گے۔ وہ ایونٹ مینیجر ہیں۔ کسی بھی بات کو ایوانٹ بنا کر خود لائم لائٹ میں لے آتے ہیں۔ وہ بات بات میں تماشا کرتے ہیں۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ مودی کے علاوہ کوئی مہمان نہیں تھا۔ چندر چوڑ ان کی بیگم اور دو بیٹیاں تھیں جو شاید گود لی ہوئی ہیں۔ مگر سب سے بڑا سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ مودی آخر وہاں گئے کیوں اور چندر چوڑ نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیوں کیا۔ وکیلوں نے اس واقعہ کو پسند نہیں کیا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ چیف جسٹس کو اس واقعہ سے بچنا چاہے تھا۔ پرشانت بھوشن نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ وکیل برادری میں یہ واقعہ گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

بحث چل پڑی
سپریم اور ہائی کورٹوں کے وکیلوں، سیاسی مبصروں، سِول سوسائٹی کے ممبروں اور آئین و قانون کی معلومات رکھنے والے عام لوگوں میں بحث جاری ہے کہ چیف جسٹس کو وزیر اعظم کا خیر مقدم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کم لوگوں کا کہنا ہے کہ تقریب دھارمک تھی اس لیے چیف جسٹس مجبور تھے۔ پرائیویٹ چینلوں کو بحث کے لیے وکیل نہیں مل سکے۔ وکیل چینل پر جانے سے انکار کر رہے تھے۔ دیپک شرما کو جو یو ٹیوب کا ایک چینل چلاتے ہیں، بڑی مشکل سے امریکہ میں ایک مشہور وکیل ملے۔ اشوک اروڑا جو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور وکالت کی پڑھائی کے دوران چیف جسٹس چندڑ چور ان کے سینئر اسٹوڈنٹ رہ چکے ہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں انہوں نے بہت صاف واضح باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا ’’میں چندر چوڑ کو جتنا کچھ جانتا ہوں اس کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے مودی کو کسی غلط فہمی میں یا بھول سے یا جلد بازی میں نہیں بلایا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر بلایا تھا۔ مستقبل کی تمنائیں ان کے دل میں ہیں۔ کورٹ میں بہت سے فیصلے یقیناً انہوں نے بہت بڑھیا کیے لیکن کچھ فیصلے غیر معیاری بھی ہوئے۔ اروڑا صاحب نے کچھ فیصلوں کے نام بھی گنوائے۔ ایک فیصلہ بابری مسجد کا تھا جو غلط تھا۔ بہر حال چیف جسٹس کے مودی کو بلا کر ان کا پرتپاک خیر مقدم کرنے پر اشوک اروڑا صاحب کو کوئی تعجب نہیں ہوا۔ ان کے خیال میں چندر چوڑ کو یہی کرنا چاہیے تھا۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کے ایک وکیل یہی کرچکے تھے۔ نتیجے میں ریٹائر ہونے کے بعد وہ راجیہ سھبا کے ممبر بن گئے۔ لیکن ایک سینئر مبصر یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ چندر چوڑ حکومت کا کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ چینل کے مشہور مبصر اشوک وانکھیڑے کہتے ہیں کہ مودی کو چندر چوڑ نے نہیں بلایا بلکہ مودی خود وہاں اچانک پہنچ گئے اور چیف جسٹس نے مجبوراً ان کا خیرمقدم کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کھیل مودی کا ہے۔ وہ ایونٹ مینجمنٹ کے ماہر ہیں۔ رام مندر کا ادگھاٹن کرنے ایودھیا گئے تھے، وہاں کیمرہ مینوں اور خدمت گاروں کی پوری فوج موجود تھی۔ ماں سے آشیرواد لینے گھر جاتے تو کیمرہ مینوں کی ٹیم بھی ساتھ ہوتی تھی۔ ٹرین ریلیز کرنے جاتے ہیں تو بھی کیمروں کی بھر مار ہوتی ہے۔ کسی غریب کو کپڑے دینے جاتے ہیں تو کیمرہ مین پہلے ہی غریب کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔

یہ سیاست عجیب و غریب ہے
ہندوستانی سیاست عجیب و غریب چیز ہے۔ انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی ہے۔ میل ملاپ بھی ہے اور لڑائی جھگڑا بھی ہے۔ بھائیوں میں انتہائی محبت بھی ہے اور دوسری طرف انتہائی نفرت بھی ہے۔ ہریانہ میں ایک بار ایک خاندان کی حکومت قائم ہوئی تو علانیہ کہا تھا کہ ہم سیاست کو ہر شعبے میں استعمال کریں گے۔ میل و محبت چاہیے ہم سے لے لو، جھگڑا فساد چاہیے ہم تیار ہیں، پیسے کا کھیل مطلوب ہو تو ہمارے پاس بہت ہے۔ رشتہ داریاں چاہیں ہم تیار ہیں۔ خاندانی جھگڑے چاہتے ہو، تو ہمارا خاندان بہت بڑا ہے۔ الغرض سرکاری سطح پر جو طریقہ مطلوب ہو ہمارے پاس موجود ہے۔ فرقوں اور برادریوں میں لڑائیوں کا کھیل انگریز حکومت نے شرع کیا تھا۔ نفرت کا بازار آر ایس ایس نے گرم کیا ہے حالانکہ سنگھ کے پاس دوسرے مثبت طریقے بھی ہیں لیکن وہ استعمال کرنا نہیں چاہتی۔ کیوں کہ اس میں گھاٹا ہے۔ اس لیے اس نے شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دے لیا ہے۔ جب اٹل بہاری واجپائی کی حکومت قائم ہوئی تب اس نے یہ طریقہ نہیں اپنایا تھا، یہ طریقہ اختیار کیا ہے تو موجودہ وزیر اعظم مودی نے۔ سرکاری افسروں کو استعمال کرنے کا کام بھی یہی حکومت زیادہ کرتی ہے۔ حالانکہ پچھلی حکومتیں بھی کرتی تھیں لیکن اس قدر بے حیائی کے ساتھ نہیں، کچھ نہ کچھ شرم رکھتی تھیں لیکن اس حکومت نے تو سرکاری افسروں کو استعمال کرنے کے نئے نئے ریکارڈ قائم کرلیے۔ آج سرکاری ایجنسیاں وزیر اعظم کے ہاتھ تلے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور اس کی ای وی ایم حکومت کے اشاروں پر چلتی ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ سپریم کورٹ کا ملک میں ایک وقار تھا اور اب بھی ہے۔ خاص طور پر جسٹس چندر چوڑ کے آنے کے بعد ان کے کچھ فیصلوں نے اس کے وقار میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ مگر ایک سابق چیف جسٹس نے راجیہ سبھا کی ممبر شپ قبول کرکے اس وقار کو نقصان پہنچایا اور اب پرائم منسٹر سے ملاقات کرکے چندر چوڑ صاحب بھی زیر بحث آگئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جو وکیل یہ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کو مودی سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی اس رائے میں شائستگی اور وقار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس اسے کس طرح نبھاتے ہیں اور کس طرح اپنا وقار بحال رکھتے ہیں۔