خبرونظر
پرواز رحمانی
حکم راں پارٹی کیا کر رہی ہے
2024 کی انتخابی مہم کے دوران ایک عام خیال یہ تھا کہ اگر بی جے پی جیت گئی تو اپنے اندر کچھ اچھی تبدیلیاں لائے گی۔ شہریوں کو آپس میں لڑانے کا کام چھوڑ دے گی۔ عوام خاص طور غریبوں اور کم زوروں کے لیے کچھ کام کرے گی لیکن ایک دوسرا خیال اس کے برعکس تھا وہ یہ کہ معمولی اکثریت سے جیتنے کے بعد پارٹی مزید جارح ہو جائے گی، اقلیتوں پر مزید ظلم کرے گی۔ غریبوں اور پریشان حال لوگوں کو مزید ستائے گی۔ انتخابات کے بعد یہ دوسرا خیال ہی درست ثابت ہوا۔ مسلمانوں پر پارٹی کے مظالم بڑھ گئے ہیں۔ نئے نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ آج کل اوقاف کا مسئلہ گرم ہے۔ مرکزی حکومت یعنی بی جے پی اوقاف قانون میں اپنی پسند کی کچھ تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے۔ وقف بورڈ اور کونسل کے ممبروں میں ہندوؤں کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح علی گڑھ یونیورسٹی کورٹ میں شامل کیا گیا۔ مساجد کے خلاف ریشہ دوانیاں تیز ہوگئی ہیں۔ جب چیلوں چپاٹوں نے مرکز کا یہ رخ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے اپنے مقام پر یہ شر انگیز کارروائیاں شروع کر دیں۔ ہماچل میں منڈی کی مسجد کی تعمیر پر ہنگامہ شروع کربدیا گیا ہے۔ آسام میں لوک سبھا کی دو سیٹیں مسلم امیدواروں نے غیر معمولی اکثریت سے کیا جیت لیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اعلان کر دیا ہے کہ ’’مسلمانوں کو ہم آسام پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے‘‘۔ یہ وزیر اعلیٰ ریاست میں آئے دن شر انگیز بیانات دیتا رہتا ہے۔ اتر پردیش کا وزیراعلیٰ یوگی مسلمانوں پر حملے کے بہانے ڈھونڈنا رہتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے اس نے ریاست کو دنگا فساد کرنے والوں سے پاک کر دیا ہے۔ ان لوگوں کے خلاف مرکزی حکومت کوئی نوٹس نہیں لیتی اس لیے کہ دنگے فسادات وزیر اعظم کی ایما پر ہوتے ہیں، چھوٹے بڑے الیکشن جیتنے کا یہ طریقہ خود وزیر اعظم نے سکھایا ہے۔ وزیر اعظم جب گجرات میں اعلیٰ تھے تو انہوں نے ہی یہ تجربہ کیا تھا، اور اب وہ اسی کو ملک میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم کے فسادی طریقے
وزیر اعظم کے فسادی طریقوں میں یو پی کے وزیر اعلیٰ نے ایک طریقہ کا اضافہ کیا ہے اور وہ ہے بلڈوزر کا استعمال۔ اس تعمیراتی مشین کا استعمال مجرموں کے خلاف نہیں محض مشکوک افراد کے خلاف کیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ متعدد بے قصور لوگوں کے مکان توڑ دیے گئے، ہر قسم کے مکان توڑے گئے۔ بڑے بڑے عالی شان بھی اور غریب لوگوں کے معمولی مکان بھی۔ یوگی کو اس تخریب کاری میں بڑا مزہ آتا ہے اور اس پر فخر ہے یعنی ایک یوگی اور اس کا یہ کام! خوب۔ مودی نے تخریب کاری کا یہ کام سنگھ کی روایتی پالیسی کے مطابق کیا ہے۔ لوگوں نے مودی کی پہلی میقات کے پانچ سال اچھے دنوں کی آرزو میں گزار دیے۔ دوسرے پانچ برس چالیس فوجیوں کی موت کے غم میں گزارے۔ تیسری میقات میں عوام کا ارادہ مودی کو لانے کا بالکل نہیں تھا۔ وہ تو الیکشن کمیشن اور ای وی ایم کی مدد اور سنگھ کے لوگوں کی ٹکنیک نے کسی طرح 240 سیٹوں تک پہنچا دیا۔ رہی سہی کمی چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار نے پوری کردی اور کسی طرح حکومت بن گئی۔ لیکن مودی اور سنگھ کو خوب اندازہ تھا کہ یہ حکومت نہیں چلے گی۔ اس لیے انہوں نے اول روز سے اپنے آزمودہ نسخے پر عمل شروع کر دیا۔ یہ نسخہ بنچ آف تھاٹس نامی کتاب میں باقاعدہ درج ہے۔ اس کتاب کو سنگھ کے دوسرے گرو، گولووالکر نے لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’مسلمان ہندوستان میں پیدا ہوئے یہ بات درست ہے لیکن انہیں ہندووں کے ہم رتبہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان کا دھرم ہندووں سے الگ ہے۔‘‘ سنگھ اور اس کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جن سنگھ اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ لوگوں نے اس تحریر کا مطلب یہ اخذ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاسکتا ہے۔ آج کی حکومت اسی پر عمل کرتی ہے۔ اگرچہ وہ لوگ متضاد باتیں بھی کرتے، یعنی مسلمانوں کو برابر کا شہری سمجھتے ہوئے انہیں ساتھ رکھنے کی بات بھی کہتے ہیں لیکن جب الیکشن کا نازک موقع آتا ہے تو ان کا طرز عمل بدل جاتا ہے۔ مودی اور یوگی آج یہی نسخہ استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں کسی کا ڈر نہیں۔ سپریم کورٹ کی بات وہ بے دلی سے سنتے ہیں۔
ویسے اطمینان ہے
قدرے اطمینان کی بات ہے کہ ملک کی اکثریت سنگھ کے اس نظریہ کو تسلیم نہیں کرتی۔ چند منتخب افراد ہیں جو اس فسطائی نظریہ کو گلے لگائے ہوئے ہیں ورنہ اہل ہنود کی بہت بڑی اکثریت اس سے بے زار ہے۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ سارے غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف ہیں، بالکل غلط ہے۔ اب بھی تعارفی اجتماعات میں دیکھا جاتا ہے کہ غیر مسلم بھائی بڑے ادب و احترام کے ساتھ پروگرام میں شریک ہوتے ہیں۔ نہایت احترام کے ساتھ کتابیں اور پمفلٹ قبول کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کو قائم ہوئے پورے سو سال ہو رہے ہں۔ ان سو برسوں میں اس نے جو کچھ کیا اس میں مثبت اور منفی دونوں طرح کے کام شامل ہیں۔ مثبت کاموں کو سماج نے یقیناً قبول کیا لیکن منفی وہ نہیں رہے جو وہ چاہتا تھا۔ اگر یہ سنگھٹن آج بھی اپنے منفی کام یعنی مسلمانوں سے دشمنی، دلتوں اور پس ماندہ طبقات سے بے زاری، غریبوں سے بے زاری اور امیروں سے گہری دوستی ترک کر کے صرف مثبت کاموں پر توجہ دے تو وہ اس ملک میں بہت بڑی خدمت کر سکتا ہے۔ مسلم رہنماوں کو بھی سنگھ کے اعلیٰ رہنماوں سے روابط قائم کرنے چاہئیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان روابط کے نتائج ہمیشہ منفی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ مثال مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم کی سزا کی ہے۔ ہاں یہ درست ہے، لیکن ہمارا خیال اس معاملہ میں یہ ہے کہ مولانا کلیم، مولانا گوتم اور دیگر افراد کا کیس پوری طاقت سے نہیں لڑا گیا۔ جو تیاری ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ آگے کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔ مسلم رہنماوں کو سنگھ کے بڑے لیڈروں سے مذاکرات کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی پوزیشن ان کے سامنے رکھنی چاہیے۔ بہت سے منفی واقعات غلط فہمیوں کی بنیاد پر بھی رونما ہوتے ہیں اور غلط فہمیاں بھی ان سنگھٹنوں کے نچلے طبقے کے لوگ پھیلاتے ہیں۔ غرض ہر طبقے کے مسلمانوں کو ان معاملات میں چوکس رہنا ہوگا۔