خبر و نظر
پرواز رحمانی
بنگلہ دیش، اب کیا ہوگا
5 اگست کو جب بنگلہ دیش میں حکومت کا تختہ الٹنے اور حسینہ واجد کے ہندوستان آنے کی خبر آئی تو خیال تھا کہ یہ مرحلہ جلد ختم ہوجائے گا اور بنگلہ دیش میں حسینہ کی حکومت جلد بحال ہو جائے گی۔ اس خیال کے پیچھے حکومت ہند کا وہ طرز عمل تھا جو اس نے ابھی تک اس کے ساتھ روا رکھا ہے۔ حکومت ہند، بنگلہ دیش خصوصاً شیخ حسینہ واجد کی پشت پر پوری قوت کے ساتھ قائم تھی۔ ابتدا میں قیاس تھا کہ حسینہ ہندوستان سے جلد ہی کسی اور ملک میں چلی جائیں گی۔ غالب خیال لندن کا تھا جہاں ان کی ایک بہن سرکاری حلقوں میں مصروف ہیں۔ ایک دوسری بہن بھی ادھر ہی رہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حسینہ کو کسی اور ملک نے قبول نہیں کیا۔ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت فی الفور قائم ہوگئی تھی۔ اس نے ابتدا ہی میں مطالبہ کردیا تھا کہ حسینہ کو فوراً بنگلہ دیش واپس بھیجا جائے کیونکہ ان پر کئی سنگین الزامات ہیں، اس لیے ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس کا یہ مطالبہ آج بھی برقرار ہے۔ لیکن حکومت ہند نے یہ مطالبہ منظور کیا نہ حسینہ کو کہیں اور بھیجا۔ کسی طاقتور ملک نے بھی بنگلہ دیش کے معاملے میں مداخلت نہیں کی۔ حسینہ نے حکومت ہند کی حمایت اور طاقت پر برسوں حکومت کی۔ شیخ مجیب کے خاندان کو آج بھی حکومت ہند کی تائید حاصل ہے۔ عبوری حکومت نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ حکومت ہند سے ہمارے تعلقات بہت اچھے اور خوش گوار ہیں، ہم حکومت ہند سے لڑائی مول نہیں لے سکتے لیکن اسے ہماری اپیل پر غور کرنا چاہیے کہ حسینہ کو بنگلہ دیش واپس بھیج دیں۔ فی الحال نہیں معلوم کہ حسینہ واجد کا انجام کیا ہوگا۔ عبوری حکومت نے معمول کا سرکاری کام آہستہ آہستہ شروع کردیا ہے۔ گرفتار شدہ سیاسی لوگوں کو رہا کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی پر سے پابندی اٹھالی ہے جس پر حسینہ حکومت نے دہشت گردی کے بنیاد الزام میں پابندی عائد کردی تھی۔ جماعت کے افراد او دیگر سیاسی لوگوں پر سے پابندی عملاً پہلے ہی نرم کردی گئی تھی۔ اعلان 28 اگست کو کیا گیا۔ جماعت پر دراصل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے مخالفت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ خالدہ ضیا کی حکومت نے یہ پابندی ہٹادی تھی مگر حسینہ نے پھر لگا دی۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔
شیخ مجیب الرحمن
حسینہ واجد اور شیخ مجیب پر سخت قسم کے کئی الزامات ہیں، مثلاً یہ کہ انہوں نے متعدد بے قصور افراد کو مراویا ہے۔ ملک میں مندروں پر حملہ کروانے کے الزامات اسلام پسندوں پر عائد کیے گئے اس کے علاوہ ان پر اور بھی کئی الزامات ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں، پولیس اور فوج کی نگاہ میں یہ واقعات ہیں۔ اسی لیے وہاں کوئی اندرونی حمایت حسینہ کے لیے نہیں پائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا وہ طبقہ جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا پر زور حامی تھا اور کوئی کارروائی نہ کرنے کے لیے اندرا گاندھی پر تنقید کیا کرتا تھا، آج بھی وہی رائے رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش کی تحریک کے دوران، جب شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان نے گرفتار کر لیا تھا تب دلی میں ان کی اور بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے آئے دن پوسٹر چھپتے تھے، یہ پوسٹر زیادہ تر اردو میں ہوتے تھے۔ کچھ پوسٹر اب بھی یاد آتے ہیں۔ ایک بار ایک بڑے پوسٹر میں شیخ مجیب کے اسکیچ پر لکھا تھا
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
یہ لوگ چاہتے تھے کہ جلد از جلد مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے اسے آزاد اور شیخ مجیب کو رہا کر الیا جائے۔ مگر اندرا گاندھی گھاگ سیاست داں تھیں جو موقع کی منتظر تھیں۔ انہوں نے اپنے حق میں عالمی رائے عامہ بنانے کے لیے لوک نائک جے پرکاش نارائن اور کچھ منتخب افراد کو غیر ممالک کے دورے پر بھیجا۔ جب وقت آگیا تو اندرا گاندھی نے کارروائی کرنے میں دیر نہیں کی جس پر اٹل بہاری واجپائی نے انہیں ’درگا ماتا‘ کہا تھا۔ واجپائی بھی سیاست داں تھے۔ ایک سیاست داں راجیو گاندھی گزرے ہیں۔ جب وہ وزیر اعظم تھے اوراپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کی طبعیت خراب تھی تو انہوں نے خود واجپائی سے کہا تھا کہ علاج کے لیے آپ امریکہ چلے جائیں۔ خرچ حکومت برداشت کرے گی۔ یہ بات خود واجپائی نے ایک میٹنگ میں بتائی تھی۔ بڑے سیاست دانوں کی نرم دلی کے ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔
کم ظرف سیاست دانوں کے واقعات
کم ظرف سیاست دانوں کے واقعات بھی ملتے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کی میٹنگ میں جو پاکستان میں ہوئی تھی اور جس میں رابطہ نے شیخ مجیب الرحمن کو بھی بلایا تھا جو پاکستان کی جیل میں بند تھے۔ میٹنگ میں شیخ کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب ڈھاکہ گئے۔ ڈھاکہ میں انہیں وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔ حلف برداری کی بہت بڑی تقریب منعقد ہوئی۔ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔ تین معروف قراء نے یکے بعد دیگرے تلاوت کی۔ تلاوت کے دوران شیخ مجیب الرحمن نہایت ادب سے بیٹھے رہے۔ تلاوت کے دوران مکمل خاموشی تھی۔ صرف شرکاء کے سانسوں کی آواز محسوس ہوتی تھی۔ پھر تقریبِ حلف برداری ہوئی۔ بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ وہاں یہ سب ہوتا رہا۔ لیکن جو ملک سب سے زیادہ خوش تھا اور بنگلہ دیش کی آزادی کا جشن منا رہا تھا وہاں ایک طبقہ تلاوت قرآن سے ناراض تھا۔ ان کے چہروں پر مایوسی تھی۔ اردو روزنامے پرتاب کے ایڈیٹر کے نریندر نے لکھا۔ ’’لو یہ لوگ بھی آخر وہی نکلے (وہی کی جگہ مسلمان لکھا تھا یا کچھ اور لکھا تھا، یاد نہیں آرہا) کچھ اور لوگوں نے بھی تبصرے کیے تھے کچھ لوگ وہاں ناریل توڑ کر درگا ماتا کی پوجا کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال سیاسی کم ظرفی کے ایسے واقعات بھی موجود ہیں۔ آج کل تو یہ واقعات اپنے شباب پر ہیں، کیوں کہ یہ لوگ اسی طبقے سے آتے ہیں جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی۔ اب وہ چاہتے تھے کہ یہ نیا ملک بھی انہی کے وچاروں کے مطابق چلے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شیخ مجیب اور ان کے خاندان کو جتنی مدد اور طاقت بیرونی طاقتوں سے ملنی تھی مل گئی، ان سے جو کام لینا تھا لے لیا گیا۔ اب جو کچھ کرنا ہے مروجہ دنیا کے مطابق کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کے موجودہ حکم رانوں کو بھی اپنے رویے میں نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ حسینہ واجد ایک خاتون ہیں۔ اگر وہ اپنے ماضی پر افسوس ظاہر کرکے اسے درست کرنا چاہتی ہیں تو موجودہ حکومت کو اس کا موقع دینا چاہیے۔ وہاں ایک اپوزیشن اس قدر کٹر نہیں ہوسکتی کہ ایک اجڑے ہوئے خاندان کو مزید تکلیف دے۔