خبر و نظر

پرواز رحمانی

بنگلہ دیش میں اور کیا ہوا
جب سے بنگلہ دیش میں تبدیلی واقع ہوئی ہے خبروں اور تبصروں میں جماعت اسلامی کا نام بھی آرہا ہے کہ بہ ای مفہوم کہ اس نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی، جو لوگ بنگلہ دیش کو پاکستان سے آزاد کروانے کے لیے لڑ رہے تھے جماعت نے ان کی مزاحمت کی تھی، اس طرح کے تبصرے کرنے والوں میں سوشل میڈیا کے مبصرین خاص طور سے شامل تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ جماعت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، قطعاً نہیں۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے سوال پر خود مشرقی پاکستان میں دو صدائیں پائی جاتی تھیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ مغربی حصے سے ہمیں جو شکایات ہیں بات چیت کے ذریعے طے کرلیں، تاہم شیخ مجیب اور ان کے ساتھیوں کا اصرار تھا کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ ملک ہونا چاہیے۔ مغربی پاکستان کی زیادتیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ انہیں وسائل کی تقسیم پر بھی اعتراض تھا۔ ادھر ہندوستان میں سیاسی پارٹ کی حیثیت سے جن سنگھ کا سب سے بڑا حامی تھا جبکہ خود جن سنگھ کے اندر ایک رائے تھی کہ پڑوسی ملک کو توڑنے کی حمایت نہیں کرنی چاہیے اس سے ہمارے ملک میں پرانت واد کو بڑھاوا ملے گا، ہمارے ملک کی سرحدی ریاستیں علیحدہ ملک کا مطالبہ کرنے لگیں گی۔ اس وقت تک وزیر اعظم اندرا گاندھی اس معاملہ میں سرگرم نہیں ہوئی تھیں۔ خاموشی کے ساتھ حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ صرف جن سنگھ مطالبات اور مظاہرے کر رہا تھا۔ ہندوستان میں جو لوگ قیام بنگلہ دیش کے حق میں نہیں تھے ان کی رائے یہ بھی تھی کہ اس طرح پڑوس میں ایک او مسلم ملک بن جائے گا۔ جہاں تک جماعت اسلامی کی مزاحمت کا تعلق ہے وہ تو پاکستان کے سبھی شہریوں کو کرنی چاہیے کہ حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے۔ ہر ملک کا شہری چاہتا ہے کہ اس کا ملک محفوظ رہے، ٹوٹنے نہ پائے۔ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی پاکستان نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ بالآخر لاہور میں رابطہ عالم اسلامی لاہور میں رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں تجویز پاس کرکے بنگلہ دیش کو ایک مسلم ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ دونوں ملکوں میں ہائی کمشنروں کا تبادلہ ہوا اور تعلقات نارمل ہوگئے۔

سوشل میڈیا کا یہ طرز عمل
غیر ذمہ دار اخباروں کی رپورٹنگ میں سوشل میڈیا شامل کیوں ہوگیا۔ بنگلہ دیش کے بحران میں گودی میڈیا نے تو بہت کچھ لگایا۔ ہندو شہریوں پر حملے، ان کے گھر بار لوٹنا، انہیں باہر نکالنے کی کوششیں۔ یہ سب غلط ہے، وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نئے حکم راں بھی الرٹ تھے انتظامیہ بھی مستعد تھی، جماعتیں اپنے طور پر حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہی تھیں۔ لیکن میڈیا نے بہر حال اپنا کام کیا اور اس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوگیا۔ پاکستان جماعت اسلامی ایک ذمہ دار جماعت ہے۔ بنگلہ دیش کے خیال سے اسے اصولی اختلاف تھا جس کا اظہار اس نے آخر تک کیا پھر سب کے مشورے سے صلح و صفائی ہوگئی تو جماعت نے بھی اتفاق کرلیا۔ وہ ایک بار حکومت میں بھی شامل ہوئی۔ جماعت اسلامی ایک صلح جو اور میل و صحبت والی جماعت ہے۔ اس کا کردار پوری دنیا میں یہی ہے۔ بنگلہ دیش کا مطالبہ یعنی پاکستان کو دو حصوں میں منقسم کرنے کی کوشش بھارتیہ جن سنگھ نے اپنی بنیادی پالیسی کے تحت کی تھی۔ اندرا گاندھی نے وقت آنے پر اس سے خوب فائدہ اٹھایا اسی لیے پاکستان کی تقسیم کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو درگا ماتا کہا تھا۔ جن سنگھ یعنی بی جے پی کی پالیسی آج بھی یہی ہے۔ مسلم جماعتوں کے بارے میں عام طور سے عام لوگ کوئی معلومات نہیں رکھتے۔ کسی جماعت کے بارے میں کسی نے کچھ کہہ دیا یا اڑادیا تو اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے سلسلہ میں جو خطرناک ماحول بنایا گیا تھا وہ ابھی تازہ ہے۔ مسلمانوں، مسلم گروپوں اور مسلم جماعتوں کے بارے میں جرنلسٹوں اور پتر کاروں تک کو ضروری معلومات نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی واقعہ کہیں ہوجائے تو اس پر ہر کوئی من گھڑت کہانیاں سنانے لگتا ہے۔ موجودہ سرکار کا گودی میڈیا اس سلسلہ میں بہت ماہر ثابت ہوا ہے۔ اور اس میڈیا کی اس شیلی کو خود پردھان منتری لیڈ کر رہے ہیں۔ منگل سوتر، مجرم بھینس چوری، چوراہوں پر مسجد یا مکان کی تعمیر وغیرہ وغیرہ۔ سرکاری گودی میڈیا اس پروپیگنڈے سے بھرا رہتا ہے۔ اس کا میڈیا سیل تو اپوزیشن لیڈروں، دلتوں اور اقلیتوں کی بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔

ایک واقعہ
ایک بار مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک اہم اجلاس جے پور میں منعقد ہوا۔ کئی ضروری مسائل زیر غور تھے، سب سے بڑا اور اہم فیصلہ ملک میں شرعی پنچایتوں کے قیام کا ہوا۔ اس کی غرض یہ تھی کہ مسلم سماج میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خاندانی جھگڑے بڑھتے جارہے ہیں اس لیے کوشش کی جائے کہ یہ جھگڑے باہم آپس ہی میں طے ہوجائیں اور عدالتوں تک جانے کی نوبت نہ آنے پائے۔ یہ نشست ختم ہوتے ہی بات اجلاس سے باہر آگئی اور بورڈ کا ہر ممبر اپنے طور پر پریس سے بات کرنے لگا۔ بورڈسے کوتاہی یہ ہوئی تھی کہ ترجمان کے طور پر کسی کو مقرر نہیں کیا تھا کہ صرف دو تین افراد پریس سے بات کریں کوئی دوسرا ممبر کچھ نہ کہے۔ انگریزی اور ہندی کے اخباروں نے اس بات کو نہایت بھیانک انداز میں پیش کیا۔ اس سے دوسرے فرقوں پر غلط اثر پڑے گا۔ جھگڑے ہوں گے۔ حالانکہ بات بالکل اس کے برعکس تھی۔ اس اقدام سے تو عدالتوں کو راحت ملتی، عدالتوں پر بوجھ کم ہوجاتا۔ حکومت خود لوک عدالتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لیکن چھوٹے بڑے اخباروں نے ملک کا ماحول بری طرح بگاڑ دیا۔ لوگ پروپیگنڈا کرنے لگے کہ مسلمان متوازی عدالتی نظام قائم کررہے ہیں اس پروپیگنڈے میں بڑےبڑے سنجیدہ لوگ بھی شامل تھے۔ سب سے پہلا ایڈیٹورل ٹائمز آف انڈیا لکھا تھا۔ ان کی سمجھ میں یہ سیدھی اور صاف بات نہیں آسکی کہ مسلمانوں کا یہ اقدام تو حکومت اور عدالتوں کی مدد کے مترادف ہے۔ یہ غلطی بہرحال مسلم پرسنل لا بورڈ ہی کی تسلیم کرنی چاہیے کہ اس نے تمام ممبروں کو اظہار خیال کے لیے آزاد کیوں چھوڑدیا تھا۔ ان پر پروٹوکول کی پابندی کیوں نہیں لگائی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ان معمولی غلطیوں کی وجہ سے بھی مخالفین کو شرارت کا موقع مل ملتا ہے۔ جماعت اسلامی کے خلاف بنگلہ دیش میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ہے۔ جماعت کے لوگ کسی بے قصور پر حملہ کبھی نہیں کرتے، وہ اپنی ہر بات شرافت اور متانت کے ساتھ کہتی ہے۔ ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش اس کا ایک اصولی فیصلہ تھا۔ وہ باب ختم ہوگیا تو اب وہ بھی نارمل شہریوں کی طرح ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل ہے۔