خبرونظر

پرواز رحمانی

مشرقی سرحد پر تبدیلی
مشرقی سرحد یعنی بنگلہ دیش میں حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا ہے۔ جنرل وقار الزماں نے اختیارات ہاتھ میں لے کر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو ملک بدر کردیا ہے۔ شیخ حسینہ 5 جولائی کو دہلی کے قریب ہنڈن ایرپورٹ پر وارد ہوئیں، وہیں انڈین فورس کے افراد نے انہیں اپنی حفاظت میں لے کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ ڈھاکہ میں انقلابیوں نے خالدہ ضیا کو فی الفور رہا کر دیا جنہیں کسی سیاسی جرم میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ فوجی حکم رانوں نے جماعت اسلامی پر سے پابندی اٹھالی ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ یہاں شیخ حسینہ کے بارے میں خبر ہے کہ وہ لندن جارہی ہیں لیکن تادم تحریر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ وہ ابھی دہلی ہی میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ وہاں دیش کو پاکستان سے علیحدہ کرنے والوں کو دی جانے والی سہولتوں پر بہت دن سے تنازع چل رہا تھا۔ طلباء پیش پیش تھے۔ یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ اصل مسئلہ تھا شیخ حسینہ کی آمریت کا۔ شیخ حسینہ تقریباً بیس سال سے اقتدار پر قابض تھیں۔ وہاں کوئی الیکشن بھی دیانتداری اور جمہوری طریقہ سے نہیں ہوا۔ ابتدا میں آٹھ دس سال تو عوام نے کسی طرح برداشت کر لیے لیکن گزشتہ آٹھ دس سال سے شیخ حسینہ بالکل بدل گئی تھیں۔ سراسر دھاندلی اور زور زبردستی اور زیادتیوں پر اتر آئی تھیں۔ سیاسی مخالفوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ مبصرین بتاتے ہیں کہ یہ طرز عمل شیخ حسینہ نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے سیکھا تھا بلکہ انہیں سکھایا گیا تھا۔ ہندوستان میں جو کچھ مودی دس سال سے کر رہے تھے، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد وہی سب کر رہی تھیں۔ بنگلہ دیش کی فوج یہ سب خاموشی سے دیکھ رہی تھی لیکن طلباء کے ایجی ٹیشن کے دوران 5 جولائی کی شام کو اچانک حرکت میں آئی۔ ایوان اقتدار میں گھس گئی اور شیخ حسینہ سے کہہ دیا کہ آ پ کے پاس 45 منٹ ہیں، ملک چھوڑ کر چلی جائیں۔ چنانچہ شیخ حسینہ نے یہی کیا۔ ہندوستانی حکام سے رابطہ کیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ہنڈن ایرپورٹ پہنچ گئیں۔

شیخ حسینہ خود ذمہ دار ہیں
ہندوستان اور دیگر کئی ملکوں کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپنے انجام کے لیے حسینہ خود ذمہ دار ہیں۔ وہ جس طرح ملک کو پہلے چلا رہی تھیں اسی طرح چلانا چاہیے تھا۔ جبر وتشدد، گرفتاریوں، اپوزیشن پر دباو اور مختلف لیڈروں کی قید و بند کا سلسلہ شروع کر کے انہوں نے بہت غلط کیا ہے۔ 6 جولائی کو نئی دہلی میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے تمام پارٹیوں کی میٹنگ بلائی تھی۔ اس میں بھی عام خیال یہی تھا کہ شیخ حسینہ نے یہ حالات خود پیدا کیے تھے۔ تاہم ملک کی سلامتی اور استحکام کا جہاں تک سوال ہے، حکومت اور اپوزیشن اس پر متفق تھے کہ ان حالات کا کوئی منفی اثر ہمارے ملک پر نہیں پڑنا چاہیے۔ نیز شیخ حسینہ کی ہرممکن مدد جاری رہے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ نئی حکومت کسی کی بھی بنے اس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کیے جائیں گے کیونکہ بنگلہ دیش ہمارا قریب ترین پڑوسی ملک ہے اور اس کے ساتھ تعلقات ہمیشہ بہتر رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ بعض مبصرین نے پاکستان اور چین کی مداخلت کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ تو بعض کا کہنا تھا کہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا کہ کیا کیا جانا ہے، اندیشوں میں پیشگی مبتلا ہونا مناسب نہیں۔ بعض مبصرین نے جماعت اسلامی کے حوالے سے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ سخت گیر جماعت بھی موجود ہے جس نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ لیکن میٹنگ میں اس پر کوئی تفصیلی بات چیت نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں کا الزام ہے کہ اس نے مشرقی حصہ کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی مخالفت کی تھی۔ بے شک یہی بات تھی۔، وہ اس لیے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا شہری اپنے ملک کو توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جماعت، پاکستان کو بچانا چاہتی تھی۔ پاکستان کے اندر سے بنگلہ دیش کی حمایت کوئی نہیں کررہا تھا۔ یہ صرف مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اور ان کے ساتھی تھے جو یہ مطالبہ کر رہے تھے اور بھارت ان کی حمایت کر رہا تھا۔ لیکن جب بھارت کی سرگرم مخالفت سے پاکستان ٹوٹ ہی گیا اور بنگلہ دیش قائم ہوگیا تو پاکستان اور وہاں کے شہریوں نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا۔ لاہور میں رابطہ عالم اسلامی کی میٹنگ میں شیخ مجیب کو مدعو کیا گیا تھا وہ شریک بھی ہوئے تھے اور یوں مسئلہ حل ہوگیا تھا۔

تعلقات قائم رہیں
بھارت نے بھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے تعلقات سدھار لیے تھے۔ اس کے ایک وفد کو یہاں کی حکومت نے مختلف امور پر مذاکرات کے لیے مدعو کیا تھا۔ بڑا اچھا ماحول تھا۔ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے بھارت کی مخالفت کبھی نہیں کی۔ مگر کچھ لوگوں کو اب بھی وہ دن یاد آتے ہیں اور وہ جماعت اسلامی کی بات اٹھاتے ہیں حالانکہ شیخ حسینہ کی حکومت نے جماعت کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اس کی لیڈر شپ کو ختم کر دیا۔ اس کے 98 سالہ امیر کو مار ڈالا۔ لیکن جماعت چپ رہی۔ اب نئی حکومت قائم ہوئی ہے تو اپنے حساب سے کام کر رہی ہے۔ اس حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائے رکھے گی۔ نئی حکومت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ شیخ حسینہ، ان کی بہن اور ان کے لڑکے کو بنگلہ دیش بھیج دیا جائے تاکہ ان کا حتساب کیا جا سکے۔ حسینہ نے بہت مظالم ڈھائے ہیں۔ اس کی سزا انہیں ملنی چاہیے۔ لیکن ابھی کچھ معلوم نہیں کہ حسینہ کا انجام کیا ہو گا۔ کوئی ملک انہیں قبول کرے گا بھی یا نہیں۔ ایک بیمار خاتون خالدہ ضیا کو جیل میں ڈال رکھا تھا۔ اب حالات تیزی کے ساتھ بدل گئے ہیں۔ سیاست میں یہی سب ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش ایک نیا اور چھوٹا ملک ہے۔ لیکن اس کے پاس ضرورت کی تمام قدرتی چیزیں موجود ہیں۔ سمندر ہے جہاں وہ بیرونی ملکوں سے رابطے قائم کرسکتا ہے۔ بھارت سمیت وہ کئی ملکوں کے ساتھ تعلقات رکھ سکتا ہے۔ فوج اس کی زیادہ مضبوط نہیں ہے لیکن کسی کے ساتھ اس کا جھگڑا بھی نہیں ہے۔ عوامی لیگ کے بغیر بھی اس نے کئی بار حکومت بنائی لیکن بھارت کے ساتھ اس کا ربط قائم رہے۔ ضیاء الرحمن کے دور میں اس نے ایک تنظیم بنائی تھی جو بنگلہ دیش کے تمام پڑوسی ملکوں پر مبنی تھی۔ 2015میں وہ اچانک ختم ہوگئی۔ بھارت کے ساتھ اس کے بہتر روابط اب بھی ہیں اور امید ہے کہ یہ آگے بھی قائم رہیں گے۔ بھارت کو بڑے ملک کے طور پر بنگلہ دیش کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس میں دونوں ملکوں کا بھلا ہے۔