خبرونظر

پرواز رحمانی

یہ چو طرفہ بحران
آج حکومت اور ملک ایک زبردست چو طرفہ بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کام تو وہی سب کر رہی ہے جو اس نے اپنے ایجنڈے کے مطابق نو سال پہلے برسر اقتدار آنے کے بعد شروع کیے تھے۔ وہ آج تک اپنے ہر غلط کام پر قابو پاتی رہی ہے لیکن اِس بار کا بحران زیادہ شدید ہے۔ یہ بحران ہمہ پہلو ہے۔ پہلے تو سب سے بڑی حریف پارٹی کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی نے ایک طویل مارچ نکالا۔ کنیا کماری سے کشمیر تک نکلنے والے مارچ کا بنیادی مقصد حکومت کی تخریب کاری کے خلاف عوام کو بیدار کرنا تھا لیکن اس کے ساتھ دو اور اہم مسائل مہنگائی اور بیروزگاری بھی شامل کرلیے گئے جن سے عوام میں خاطر خواہ جوش پیدا ہوا۔ تقریباً تین ہزار کلومیٹر کے اس مارچ کو غیر متوقع طور پر غیر معمولی عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ عام خیال ہے کہ اس سے کانگریس مضبوط ہوئی ہے اور 2024ء کے لوک سبھا انتخاب میں وہ بی جے پی کا کامیاب مقابلہ کر سکتی ہے اور بی جے پی کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ یہ بحران جاری ہی تھا کہ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نے 2002ء کے گجرات کے فسادات پر ایک مستند تحقیقی رپورٹ جاری کی جس میں وزیر اعظم مودی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے. مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ یہ رپورٹ حکومت برطانیہ کی اپنی انکوائری کا نتیجہ تھی اور بی بی سی نے یہ فلم اسی کی بنیاد پر تیار کی ہے۔

سب سے بڑا معاشی فراڈ
اور بحران کی تیسری شکل ہے صنعت کار اڈانی کا معاملہ۔ اس سیٹھ کے بارے میں انکشافات ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں مخالف پارٹیاں تو ایک عرصے سے کہتی آرہی ہیں کہ یہ اپنے کاروبار کے مختلف شعبوں کے ذریعے شہریوں کو لوٹ رہا ہے مگر اب امریکہ کے ایک کاروباری ایجنٹ ہنڈن برگ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اڈانی سب سے بڑا فراڈ ہے جو راشٹر واد کے چولے میں ہندوستانی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد اڈانی کے ساتھ حکومت اور وزیر اعظم اس بحران میں بری طرح گھر گئے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اتنے بڑے بڑے کام وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے تعاون کے بغیر نہیں کر سکتے۔ ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، بجلی کے شعبے اور بینکوں کے حصص وزیر اعظم نے ہی اڈانی کو دلائے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض ماہرین تو اس معاشی بحران کے لیے اڈانی اور مودی دونوں کو برابر کے ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی معاشی گھوٹالے میں وزیر اعظم کا نام براہ راست آرہا ہے۔ ان کے علاوہ مزید معاملات ہیں جن میں حکومت اور وزیر اعظم گھرے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے راشٹرواد اور مسلم دشمنی کا سہارا وقتاً فوقتاً لیتے رہتے ہیں لیکن بات نہیں بنتی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے گجرات میں حال ہی میں کہا تھا کہ ہم نے دنگا فساد کرنے والوں کو سبق سکھا دیا ہے اس لیے آٹھ دس سال سے دنگے نہیں ہوئے۔ امیت شاہ 2002ء کے فسادات کے حوالے سے بول رہے تھے۔

مسلم دشمنی بھی سہارا
وزیر اعظم کے بہت سے وفادار تو مسلسل اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یو پی کے یوگی تو آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے کرتے رہتے ہیں۔ مودی کے ایک اور وفادار بابا رام دیو جن کا دعوی ہے کہ مودی کو وزیر اعظم انہوں نے ہی بنایا ہے، مسلمانوں کی نماز بند کروانا چاہتے ہیں۔ ابھی ابھی انہوں نے ایک اشتعال انگیز بیان اس سلسلہ میں دیا ہے۔ مودی وزیروں میں بھی کچھ لوگ ہیں جنہیں فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے سے خاص دلچسپی ہے۔ وزیر اعظم اور بی جے پی کے سامنے آج کل سب سے بڑا چیلنج 2024ء کے عام انتخابات جیتنا ہے۔ وہ کئی ہفتوں سے اس کی تیاری کر رہے ہیں کہ اچانک تین چار بڑے مسائل اچانک ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے ۔ وزیر اعظم کو اڈانی کے معاملے نے بری طرح پھنسا دیا ہے۔ ویسے بی جے پی کے پاس الیکشن جیتنے کے کئی حربے ہیں، وہ کوئی نہ کوئی چال چل ہی لے گی۔ مودی کے لیے تشویش ناک مسئلہ عالمی برادری کا ہے۔ اس بحران سے ان کی عالمی تصویر بھی متاثر ہو رہی ہے۔ متذکرہ بالا تینوں مسائل ایسے ہیں کہ اگر مخالف پارٹیاں رائے عامہ ہموار کرنے لیے استعمال کرنا چاہیں تو آسانی سے کر سکتی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف جو شرانگیزی کی جا رہی ہے اس پر انہیں ضبط و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ آج کل مسلمان بہت دور اندیشی سے کام لے رہے ہیں۔