خبرونظر

پرواز رحمانی

حماس اوراسرائیل
شرق اوسط میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گرم جنگ کو ایک عرصہ ہوگیا لیکن جنگ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی۔ حماس کی عسکری طاقت اسرائیل کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے اور دنیا کا بڑا حصہ جانتا ہے کہ حماس حق پر ہے۔ حماس تنظیم آزاد مملکت فلسطین کا حصہ ہے۔ فلسطین خود اس جنگ میں شریک نہیں ہے۔ حالانکہ اسرائیلی حملے پورے فلسطین پر ہوتے ہیں۔ وہ بس زخمی فلسطینیوں اور جنگ زدہ لوگوں کی جزوی مدد کررہا ہے۔ حماس اپنے روایتی اسلحہ سے اسرائیل کا مقابلہ کررہا ہے۔ پڑوسی مسلم ممالک میں صرف ترکی، ایران اور قطر کچھ مدد کرتے ہیں۔ ملائشیا کچھ دور سے حمایت کررہا ہے۔ مال دار ملکوں میں سے کوئی حماس کی مدد کو نہیں آیا۔ پختہ خیال ہے مال دار مسلم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ سعودی عرب، اسرائیل کی طرف سے مغرب کے مال داروں کے لیے ایک غیر معمولی شاندار شہر آباد کرنے میں لگا ہوا ہے۔ فلسطین میں اب تک لاکھوں جانیں جاچکی ہیں ۔ اسرائیل اپنے عام اسلحہ کے علاوہ گوریلا جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ اس کے متعدد خفیہ فوجی مسلم ملکوں میں مقیم ہیں۔ وہ ابھی تک سیکڑوں اہم شخصیات کو مارچکا ہے۔ چنانچہ اس نے اس ہفتے حماس کے سب سے اہم لیڈر اسماعیل ہنیہ کو مار ڈالا۔ اس پر ترکی ایران اور قطر نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ہے۔ ہنیہ کی نماز جنازہ یکم اگست کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اور تدفین دوسرے دن (جمعہ کو) قطر کے داارلحکومت دوحہ میں ہوئی جس میں امیر قطر کے علاوہ کئی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پورے عالم اسلام میں رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ وہ ایک مضبوط اور جاں باز لیڈر تھے۔ ان کی رحلت سے پوری امت مسلمہ خصوصاً فلسطینیوں کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ دنیا کے عام مسلمان بھی غم زدہ ہیں۔ کئی ملکوں میں ان کی غائبانہ نماز ادا کی گئی۔ اللہ مرحوم ہنیہ کی مغفرت فرمائے انہیں ان کی خدمت کا صلہ دے حماس کو ان کا نعم البدل نصیب کرے اور جس مقصد کے لیے ہنیہ نے اپنی جان دی ہے وہ مقصد بھی جلد از جلد پورا ہو۔

یہ برطانیہ کی سازش ہے
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اسرائیل کی گوریلا جنگ کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل نے ان کے پیچھے اپنے کئی خفیہ فوجی لگائے تھے جو حماس کے اندر گھس کر کام کرتے ہیں۔ حماس کے ایک نابینا رہنما کو بھی اسرائیل نے اسی طرح مراویا تھا۔ حماس تن تنہا ہے۔ تین چار غیرت مند ملکوں کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی نہیں۔ طاقتور ممالک تو مال دار ہیں اور اپنی دولت مغربی ملکوں پر لٹارہے ہیں یا پھر فوجی ڈکٹیٹر ہیں جواپنی غریب رعایا پر بندوق کی نال پر حکومت کررہے ہیں۔ انہیں کسی نیک جدوجہد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ شرق اوسط سے دور آباد مسلم ممالک اپنے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہاں کے عام مسلمان یقیناً غیرت مند اور اللہ والے ہیں لیکن ان کے پاس کچھ نہیں، کوئی طاقت نہیں، کوئی قوت نہیں، نہ مالی وسائل ہیں کہ حماس کی کچھ مدد کرسکیں۔ امریکہ ہمشیہ کی طرح اسرائیل کے ساتھ ہے۔ ترکی اور ایران کی زبانی دھمکیوں پر اس نے حماس کے خلاف فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ فلسطین کا جھگڑا عربوں اور اسرائیلیوں کے مابین پچھتر سال سے ہے۔ اصل تنازعہ مسجد اقصیٰ کا ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہودیوں نے دنیا بھر میں غدر مچا رکھا تھا۔ ان کا زور مغربی ملکوں میں زیادہ تھا۔ برطانیہ اور اس کے قریبی ملکوں کو وہ خاص طور سے پریشان کررہے تھے۔ بالآخر برطانیہ نے دوسرے ملکوں کو اعتماد میں لے کر یہ منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ ان لوگوں کو دنیا کے ایک حصہ میں بسادیا جائے۔ تجویز پر اتفاق رائے ہوگیا اور زمین ڈھونڈی گئی عرب مملکتوں کے عین قلب میں یہ یہودیوں کی پسند تھی اس لیے وہ مسجداقصیٰ سے اپنا تعلق بھی ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس وقت سے مسلمانان عالم مسجد اقصیٰ اور سرزمین فلسطین کی باز یابی کے لیے مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ فلسطین میں حماس بھی اسی مقصد کے لیے رونما ہوئی ہے۔ ویسے یہ ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک ہے۔

فتح حماس کو نصیب ہوگی انشا اللہ
قوم اسرائیل فلسطین میں آباد ہوگئی۔ برطانیہ اور اس کے ساتھی سازش میں کامیاب بھی ہوگئے۔ امریکہ کا اس میں بھرپور حصہ ہے۔ جنگ جاری ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ عرب مال دار مملکتیں ہیں جنہوں نے امریکہ کی مدد سے اپنے تیل کی دولت کو مضبوط بنالیا جس پر ان کے پورے خاندان عیش کررہے ہیں۔ انہیں اسلام فلسطین یا حماس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عربوں میں دولت کے لحاظ سے جو مملکت جتنی بڑی ہے اسلام کے تعلق سے وہ اتنی ہی بے لگام ہے۔ اس کی دوستی اسرائیل اور امریکہ سے ہے۔ متحدہ عرب امارات کو اسلام اور امت مسلمہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ فلسطین کی علیحدہ ریاست اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے۔ اگر حماس خدانخواستہ ختم ہوگئی تو فلسطین کے صدر محمود عباس اپنی ’’ریاست‘‘ لیے بیٹھ جائیں گے۔ حماس اور اس کے مقاصد سے غرض دنیا کے صرف عام مسلمانوں کو ہے۔ وہی دور دراز ملکوں میں ان کے لیے تڑپتے ہیں۔ ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور ان شاء اللہ انہی کی دعاوں سے مسجد اقصیٰ سمیت پورا فلسطین آزاد ہوگا۔ انشا۔ حضورؐ کا قول مبارک ہے کہ اسلام غریبوں کمزوروں کے ذریعے نامساعد حالات میں قائم ہوا اور پھیلا۔ اب بھی یہی ہوگا۔ دنیا کے غریب اور کمزور مسلمان خواہ وہ کسی بھی حصے میں رہتے ہوں مسجد اقصیٰ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، جب وقت آئے گا تو ہر کام اپنے آپ ہوجائے گا۔ اس وقت اسلام کی پوزیشن یہ ہے کہ مسلمانوں کے خواص (حکم راں، امیر دولت مند، ڈاکٹیٹر) ایک طرف ہیں اور عام مسلمان دوسری طرف ہیں اور اسلام ان عام مسلمانوں کی وجہ سے ہی زندہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں اسلام، مخالفتوں کی زد میں ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ اسلام ہی ہے جو مغرب میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ یہ لوگ ہی اسلام کی قوت بنیں گے۔