خبرونظر

پرواز رحمانی

بجٹ کیا تھا
عام انتخابات کے بعد این ڈی اے کی حکومت نےاپنے پہلے سالانہ بجٹ میں جو کچھ پیش کیا اس میں عوام کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ البتہ حکومت کے دو ساتھیوں (سہاروں) کو مطمئن کرنے کی کچھ نہ کچھ کوشش ضرور نظر آتی ہے۔ تیسرا اور سب سے بڑا سہارا یعنی کارپوریٹ کے لیے معمول کے مطابق بہت کچھ کیا گیا ہے۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو جو کچھ مانگ رہے تھے ان میں سے تو انہیں کچھ بھی نہیں ملا، بس تھوڑی بہت رقوم دے کر انہیں فی الحال خاموش کردیا گیا۔ چندرا بابو نائیڈو ایک لاکھ کروڑ روپے مانگ رہے تھے لیکن انہیں پندرہ ہزار کروڑ روپے دے کر ٹرخا دیا گیا۔ نتیش بابو بہار کے لیے خصوصی حیثیت کا موقف چاہتے تھے انہیں بھی ایک پیکیج دے دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ہی مطمئن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل کے لیے کوئی بڑی ڈیل ہوئی ہے۔ حکم راں جماعت پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو مستقبل کے جال میں پھانسنے کے لیے مشہور اور بدنام ہے۔ اس بجٹ میں اقلیتوں کو کچھ نہیں دیا گیا۔ ویسے اقلیتیں یہ امید بھی نہیں رکھتی تھیں۔ اب تو وہ لوگ بھی کہنے لگے ہیں کہ جو ہمیں ووٹ دے گا ہم اسی کے ہیں، باقی لوگوں سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں۔ انتخابات میں شرمناک شکست اور مقبولیت میں کمی کا نتیجہ ہے کہ اب پوری پارٹی یعنی مودی اور امیت شاہ نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو عوام الناس کے سامنے کمزور نہیں دکھانا چاہیے۔ ہمیں یہی ظاہر کرنا ہو گا کہ ہم بہت طاقتور ہیں، پوری طاقت سے جیت کر آئے ہیں، ہمیں کوئی دبا نہیں سکتا۔ اسی طرح اپوزیشن پہلے کی طرح اب بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ کچھ بھی کرلیں کچھ بھی کہیں ہمارے سامنے بے بس ہیں۔ یہ بات اس پہلو سے درست ہے کہ ای وی ایم، ای ڈی، سی بی آئی، دلی پولیس، گودی میڈیا اور الیکشن کمیشن اب بھی حکومت کے پاس ہے۔ جب تک ای وی ایم حکومت کے ہاتھ میں ہے اس وقت تک حکم راں پارٹی کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عدالت عظمیٰ بہت سنبھل کر بولتی ہے۔ رام مندر، گیان واپی مسجد اور متھرا عیدگاہ کے بارے میں بھی عدالت عظمی کا رویہ حیرت انگیز رہا۔

دو فریقوں کی خاطر
مخالف لیڈروں نے صحیح کہا ہے کہ یہ بجٹ حکومت بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ نتیش کمار کو سب کچھ نہیں دیا، لیکن جو بھی دیا ہے اس سے وہ مطمئن ہیں اور آئندہ بھی مزید کچھ ملنے کی انہیں امید ہے۔ اسی طرح چندرا بابو نائیڈو کو بھی کچھ نہ کچھ مل ہی گیا ہے، انہیں مزید بھی ملے گا۔ گویا مودی اب بے فکر ہیں کہ یہ دونوں بیساکھیاں انہیں سے لگی رہیں گی۔ دونوں نے اپنا اپنا محدود مقصد حاصل کرلیا۔ نتیش بابو کو آل انڈیا لیڈر بننے کی تمنا تھی اس وقت وہ پورے دیش کی بات کرتے تھے۔ اب صرف بہار کی بات کرتے ہیں۔ مودی سے ڈیل بھی انہوں نے بہار پر ہی کی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کا معاملہ بھی یہی ہے۔ لوگ کہہ رہیں کہ پہلے بجٹ صرف گجرات کے لیے بنتا تھا اب اس میں دو ریاستیں اور شامل ہوگئی ہیں۔ گویا 2024 کا سالانہ بجٹ صرف تین ریاستوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ ان دونوں لیڈروں کی آل انڈیا حیثیت اس پہلو سے ہوگئی کہ یہ ہر معاملہ میں مودی کی حمایت کریں گے۔ مودی کو یہی کچھ چاہیے تھا۔ مگر اپوزیشن بھی پوری طرح تیار ہے۔ وہ مودی کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ مودی نے اپنے دس برسوں میں مخالف پارٹیوں اور عوام کو جتنا پریشان کرنا تھا اس سے زیادہ کرلیا۔ اب اپوزیشن بھی چوکنا ہوگئی ہے۔ عوام کو بھی سمجھ آگئی ہے۔ مودی کے ہر تماشے کی حقیقت کھل گئی ہے۔ انہوں نے رام مندر کا سارا کریڈٹ سمیٹ کر خود واحد ہیرو بننے کی کوشش کی مگر بری طرح ناکام رہے۔ ہر سال دو کروڑ بے روزگاروں کو روزگار دینے کے بلند بانگ دعوے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس سالوں میں بمشکل پچاس ساٹھ لوگوں کو کام مل سکا۔ متھرا اور گیان واپی پر وار پر وار کررہے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی ہے۔ بس تھوری بہت امید چیف جسٹس کی نرم روی سے ہے۔ سارا انحصار ایجنسیوں پر قائم ہے جن کے سہارے وہ مزید پانچ سال لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ وشو گرو بننے کا خواب کا فور ہوگیا ہے۔ غیر ملکیوں میں بھارتی نسل کے لوگوں کو جوڑ بٹور کر کچھ تماشا کرلیتے ہیں۔ اندرون ملک سارا زور اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو کوسنے میں لگا دیتے ہیں۔

یہ دور بھی یاد رہے گا
ابھی ملک کی آزادی کو پورے سو سال بھی نہیں ہوئے، پچھتر سال گزرے ہیں لیکن ان پچھتر برسوں میں ملک نے حکومت کاری کا ایک عجیب و غریب اور اچھوتا نمونہ دیکھ لیا ہے۔ حکومت کے یہ دس سال شہریوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس عجیب وغریب حکومت کے عجیب و غریب وزیر اعظم نے ہندتو کا ایسا نمونہ شہریوں کو چکھا دیا کہ اسے نمونہ بد کے طور پر تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ چونکہ ابھی حکومت اسی گروہ کے پاس ہے لہٰذا اس کے چاپلوس اور چالو لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے اب بھی اس کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ حکومت زیادہ دن چلنے والی نہیں ہے، جیسا کہ لوگ عام طور سے کہہ رہے ہیں۔ ابھی وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو حکومت چلانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ نئی حکومت آئی تو سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دے گی۔ اڈانیا اور امبانی سے مالی ڈیل پر حقائق بھی سامنے آئیں گے۔ مودیوں کے بڑی بڑی رقوم لے کر فرار ہونے کے قصے بھی لوگ سنیں گے۔ نتیش کمار اور چندرا بابو سے کیا معاملات ہوئے سب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا۔ رام مندر کی تعمیر میں کیا کیا ہوا، زمین کس کس نے ہڑپ کی سب معلوم ہوجائے گا۔ مسلمانوں کے ساتھ محمد اخلاق کے قتل سے لے کر آج تک کیا کچھ ہوا، سب سامنے آجائے گا۔ اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ یہ تمام معاملات دب جائیں گے۔ حکومت کا ریکارڈ کچھ اس طرح بنایا جائے کہ عوام کو حقائق کا پتہ ہی نہ چل سکے اور دس سال کی حکومت بے داغ چھوٹ جائے۔ اگر اڈانی و امبانی اور مودی کے ساتھ اپوزیشن کا کوئی معاملہ آج طے ہو جائے یعنی دس سال کی حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو تو مودی نے آج ہی حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہوتا۔ ایک معاملہ آر ایس ایس کا بھی ہے۔ اس نے مستقبل کے لیے کیا طے کیا ہے؟ یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم لیکن مودی، امیت شاہ اور نڈا کے بارے میں سنگھ نے ضرور کچھ نہ کچھ طے کیا ہوگا۔ مودی نے سنگھ کو دھول چٹادی ہے۔