خبرونظر

پرواز رحمانی

وہی رفتار بے ڈھنگی

لوک سبھا کے انتخابات جیسا کہ پہلے سے اندازہ تھا، غیر معمولی ثابت ہوئے۔ پرائم منسٹر اور ان کی پارٹی کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے۔ اپوزیشن لیڈروں خصوصاً راہول گاندھی کو انہوں نے جتنا بدنام کرنے کی کوشش کی وہ اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوئے۔ پی ایم کہتے رہے کہ راہل کو 50 یا 52 سیٹیں ملیں گی لیکن انہیں پورے سو سیٹیں ملیں، پی ایم کی کوشش تھی کہ لوک سبھا میں اس بار بھی اپوزیشن کا کوئی لیڈر نہ ہو لیکن راہل انڈیا الائنس کے لیڈر بن کر لوک سبھا میں داخل ہوئے جس سے ایوان کا رنگ ہی بدل گیا۔ مودی پہلے ایوان میں راہل کا سیدھا نام لینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اب انہیں احترام کے ساتھ نام لینا پڑ رہا ہے۔ مودی راہل کو کمسن سمجھتے تھے۔ اب منتخب اسپیکر کو ان کی کرسی تک پہنچانے گئے تو راہل گاندھی بھی ان کے ساتھ تھے اور بھی بہت سے غیر معمولی مناظر ایوان میں نظر آئے۔ مودی نے یہ حکومت چونکہ جوڑ توڑ کے ذریعہ بیساکھی کے سہارے بنائی ہے اس لیے ایوان میں خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور دم دار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بولنے کا انداز پہلے سے زیادہ اوٹ پٹانگ ہوگیا ہے۔ یہی طریقہ ان کے اسپیکر اوم برلا نے بھی اختیار کر رکھا ہے۔ ادھر اپوزیشن بھی ان طریقوں کے خلاف پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ اپوزیشن گزشتہ دس سالوں سے دونوں ہی ایوانوں میں کمزور تھی، اپوزیشن لیڈر تو تھا ہی نہیں، اب اپوزیشن اور اس کا لیڈر دونوں مضبوط ہیں۔ راہل گاندھی نے نئی لوک سبھا کے پہلے ہی دن وہ زور دار خطاب کیا کہ اس دوران وزیر اعظم کو نشست سے خود اٹھنا پڑا۔ ان کے ساتھ ان کے پانچ بڑے وزیر بھی کھڑے ہوگئے تاکہ راہل کو روک سکیں یا ان کے خطاب میں خلل ڈال سکیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر کے خطاب کے دوران کھڑے ہوئے۔ مگر راہل نے اپنی دھواں دھار تقریر جاری رکھی اور ایسے مسائل اٹھائے جن کے سننے کی تاب وزیر اعظم نہیں لاسکتے تھے۔ راہول نے اڈانی سے لے کر منی پور اور غربت کے عام مسائل سے لے کر اقلیتوں پر مظالم تک کا ذکر کیا۔ ماضی کی عظیم شخصیات میں پیغمبر اسلامؐ کا حوالہ بھی دیا۔ آپ کا ایک فرمان بھی نقل کیا۔ راہل کے اس خطاب سے جہاں اپوزیشن کے اندر جوش جذبہ دیکھا گیا وہیں پی ایم اور ان کے تمام ساتھیوں کی حالت خراب تھی۔

سیاسی دنگل میں

سیاسی دنگل میں جوڑی برابر کی اب بھی نہیں ہے۔ نئی لوک سبھا میں بھی حکم راں پارٹی ہر لحاظ سے مضبوط ہے۔ کارپوریٹ اس کے ہاتھ میں ہے جس سے اسے پیسے کی کوئی کمی نہیں۔ مال دار میڈیا اس کے پاس ہے۔ فتنہ و فساد لڑائی جھگڑے، اوٹ پٹانگ بولنے والوں کی ایک فوج اس کے ساتھ ہے۔ الیکشن کمیشن اب بھی اس کا وفادار ہے۔ ای ڈی اور سی بی آئی اس کے اشاروں پر کام کرتی ہیں۔ اس کے برعکس اپوزیشن کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں۔ جو کچھ ہے صرف جوش و جذبہ ہے جس کے سہارے وہ وقت کی سب سے بڑی (مگر مصنوعی) طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ کامیاب بھی ہیں۔ اس لیے کہ ان کے ساتھ عوام بھی ہیں۔ عام طور سے کہا جاتا ہے کہ اس بار کے انتخابات دو پارٹیوں کے درمیان نہیں، عوام اور حکم راں جماعت کے درمیان تھے۔ عوام حکومت سے سخت نالاں اور پریشان تھے اس لیے انہوں نے براہ راست حکومت سے مقابلہ کیا۔ وہ تو ای وی ایم کے معاملہ میں بے بس تھے۔ مگر جہاں موقع ملا ای وی ایم کو آلہ کار بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس سے قبل چار ریاستوں کے انتخابات میں صرف ای وی ایم کی حکم رانی تھی اس کے خلاف ہزاروں شکایتیں اب ملک کی عدالتوں مں جمع ہیں۔ لیکن اس بار حکم رانوں کو ای وایم استعمال کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ گویا حکم راں پارٹی بری طرح ہاری۔ حکم راں پارٹی نے جوڑ توڑ اور دولت کی بنیاد پر کسی طرح حکومت بنالی اور حکمت عملی بھی وہی پرانی رکھی۔ خیال تھا کہ حکم راں پارٹی اب کچھ نہ کچھ بدل جائے گی لیکن نہیں بدلی، پی ایم کی چرب زبانی کا انداز وہی ہے، ابھی ایک بیان میں کہہ رہے تھے جنتا نے اس بار دو فیصلے دے دیے ہیں ایک فیصلہ ہمیں حکومت کرنے کا دوسرا فیصلہ ہے تمہیں اپوزیشن میں بیٹھنے کا اس لیے تم وہیں رہو جہاں ہو، تمہارے بس کی بات نہیں۔ یعنی حکومت کرنا تمہارے بس سے باہر ہے۔ حکومت صرف ہم کرسکتے ہیں۔ لیکن گزشتہ بار کی چرب زبانی اور اس بار کی چرب زبانی میں بہت فرق ہے۔ اس بار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی ایم زبردستی بول رہے ہیں۔ ان کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پی ایم کا چہرہ بھی بجھا بجھا سا رہتا ہے جب وہ بولتے ہیں۔

تبدیلی ضرور آئے گی

اب حکم راں جماعت کے لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح دھونس و دھاندلی اور دولت خرچ کرکے یہ حکومت پانچ سال پورے کرلے۔ ان کے 240 کو ان کے قول و عمل سے کوئی دلچسپی نہیں وہ بس ہمیشہ کی طرح و فادار رہنا چاہتے ہیں۔ این ڈی اے میں کچھ رد عمل دکھانے کچھ اچھل کود کرنے والے ممبر موجود ہیں لیکن وہ کر کچھ نہیں سکتے۔ دو بیساکھیوں کے دو لیڈروں کی حکومت نے ریاستی ترقی کے نام پر بہت کچھ دے رکھا ہے، اتنا کچھ کہ اب وہ کچھ نہیں بول سکتے۔ ان دو لیڈروں کی ایک طویل فہرست کی تھی، جن میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی حکومت نے پورا نہیں کیا کچھ تو پیسے کے زور پر اور کچھ نامعلوم اسباب کی بنا پر نتیش کمار اور چندرابابو کو خاموش کر رکھا ہے اور حکومت کر رہی ہے۔ لیکن اپوزیشن بھی اب بھی متحرک ہے اور چاہتی ہے کہ یہ حکومت کسی طرح کمزور ہو اور انہیں حکومت سازی کا موقع ملے۔ اپوزیشن تا دم تحریر متحد ہے۔ اپوزیشن کے سب سے مضبوط لیڈر راہل گاندھی اور اکھلیش یادو ہیں، کچھ اور ممبر بھی ہیں جو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پوری قوت کے ساتھ بولتے ہیں۔ راہل گاندھی نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بات بات پر پی ایم سے سوال کرتے ہیں لیکن وہ ہیں کہ کسی بات کا جواب ہی نہیں دیتے، صرف راہل کی کردار کشی کے پہلو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ملک کو اتنا گھٹیا وزیر اعظم کبھی نہیں ملا اور آئندہ بھی ملنے کا امکان نہیں ہے۔ مودی، حکومت میں پہلے کبھی نہیں رہے۔ 22 سال قبل انہیں کیشو بھائی پٹیل کی جگہ اچانک حکومت مل گئی تھی۔ دس سال گجرات میں حکومت کے نام پر من مانی کرتے رہے پھر 2014ء میں دہلی آئے تو یہاں بھی انہوں نے وہی کیا لیکن دس سال بعد عوام نے انہیں سبق سکھایا مگر اینٹھ اب بھی وہی ہے کہ میں ہارا نہیں ہوں تیسری بار پی ایم بنا ہوں وغیرہ، لیکن اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ یہ کھوکھلا پن ہی بالآخر ان کی چرب زبانی ختم کردے گا۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایک سال کے اندر اندر حکومت اپنے انجام بد سے دوچار ہو جائے گی۔ ویسے بھی یہ بات عام طور سے کہی جاتی ہے کہ ملک میں ایک بڑی خوشگوار ہوا چلنے والی ہے جس سے نفرت کا طوفانِ بدتمیزی اٹھانے والے غائب ہو جائیں گے۔