خبرونظر

پرواز رحمانی

امریکی رپورٹ پر یہ ردعمل

امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں مذہبی آزادی اور مذہبی اکائیوں کے ساتھ حکومت ہند کے طرز عمل پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ بہت تفصیلی ہے جس میں حکام کے طور و طریقوں پر بھی گرفت کی ہے۔ کہا ہے کہ اقلیتوں کے تئیں وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کا رویہ درست نہیں ہے۔ دوسری جانب حکومت ہند نے بھی امریکی رپورٹ پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ رپورٹ ووٹ بینک کی سیاست کرنے والوں کو فائدہ پہنچانے والی ہے۔ حکومت نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے۔ امریکی رپورٹ جتنی سخت ہے حکومت ہند کا ردعمل اس سے زیادہ شدید ہے۔ لیکن کیا یہ ردعمل امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کو متاثر کرے گا؟ اور کیا اس سے وہ ہندوستانی شہری بھی متاثر ہوں گے جو ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور سب کچھ دیکھ رہے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ایک محدود طبقہ جو خود حکومت کے طرز عمل میں شامل ہے اور اقلیتوں سے پرخاش رکھتا ہے حکومت کے ردعمل کی تائید کرے گا ورنہ ملک کی عظیم اکثریت حکومت کی تائید نہیں کرسکتی اس لیے کہ وہ بیدار ہے، اس کی آنکھیں بھی کھلی ہیں اور اپنا اچھا برا خوب سمجھتی ہے۔ حالیہ الیکشن کے نتائج نے تو صاف بتا دیا ہے کہ جنتا جناردن یعنی ملک کے عوام حکومت کے طرز عمل سے بے زار ہیں۔ حکم راں پارٹی کسی طرح الیکشن جیت کر بڑی پارٹی تو بن گئی ہے لیکن عوام کی اکثریت کے ووٹ اسے نہیں ملے۔ رام جی کو لانے کا دعویٰ بھی کھوکھلا ثابت ہوا اس لیے کہ خود ایودھیا سے حکم راں پارٹی کا امیدوار ہار گیا۔ شیوجی نے بھی بنارس میں اپنا اثر دکھلا دیا۔ حکم راں پارٹی کے لوگ پردھان منتری کو دس لاکھ ووٹوں سے جتوانا چاہتے تھے، خود پی ایم کا دعویٰ بھی یہی تھا لیکن صرف ڈیڑھ لاکھ زائد ووٹوں سے جیت سکے۔ خاص حریف راہل گاندھی کو صرف پچاس سیٹوں پر روک دینا چاہتے تھے لیکن وہ سو سیٹیں لے آئے نتیجے میں پی ایم کا چار سو پار کا نعرہ مضحکہ خیز ثابت ہو کر رہا۔

انتخابات کا ایک پہلو

اس طرح لوک سبھا کے انتخابی نتائج حکومت کے منہ پر 75 سال کی انتخابی تاریخ کا سب سے بڑا طمانچہ ہے۔ 1975 میں حکومت کے خلاف ہونے والے نتائج صرف ایک رخے تھے۔ اندرا گاندھی کی حکومت نے کسی فرقے یا طبقے کے خلاف کوئی مہم نہیں چھیڑ رکھی تھی وہ صرف اپنی حکومت بچانا چاہتی تھیں۔ اگرچہ طریقہ غلط تھا لیکن 2024 کی حکومت حکومت نے کچھ فرقوں کے خلاف باقاعدہ نفرت کی مہم چھیڑ رکھی تھی۔ وہ مختلف فرقوں کو آپس میں لڑانا چاہتی تھی۔ علاوہ ازیں اس حکومت کے خلاف سیکڑوں سنگین الزامات تھے، نہایت سنگین الزامات۔ سرکاری ایجنسیوں پر حکومت نے قبضہ جما رکھا تھا۔ ای ڈی، سی بی آئی، اور الیکشن کمیشن جیسے ادارے حکومت کے زیر اثر تھے۔ پورے میڈیا کو حکومت کے امیر دوستوں نے خرید رکھا تھا۔ مخالف لیڈروں کو حکومت نے یا تو جیلوں میں بند رکھا تھا یا ان پر مقدمات قائم کر رکھے تھے۔ آزادی اور جمہویرت نام کی کوئی چیز ملک میں موجود نہیں تھی۔ ای وی ایم حکومت کے ہاتھ میں تھا۔ عوام نے انتخابی مہم کے دوران تو کچھ نہیں کہا۔ پولنگ کے موقع پر اپنا غم و غصہ پوری طرح ظاہر کر دیا۔ پھر جو بے قاعدہ حکومت بنی پرانے طریقوں کے مطابق بنی۔ یہ تمام حالات امریکہ کی نظر میں تھے اور دوسرے ملکوں کی نظر میں بھی اور ملکی عوام تو ان حالات کا مزہ چکھ ہی رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا رنگ دکھا دیا۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات آزادانہ اور دیانت دارانہ ہوتے یعنی ای وی ایم نہ ہوتی تو حکومت کے حصے میں پچاس سیٹیں بھی نہ آتیں۔ لیکن یہ صورت حال کب تک قائم رہے گی بہت سوں کے لیے کہنا مشکل ہے۔ حکومت پر ایک بڑا عالمی الزام اقلیتوں پر مظالم کا بھی ہے، جسے دنیا والے بھی دیکھ رہے ہیں اور ملکی عوام تو ان کا مزہ چکھ ہی رہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں مستقلاً رپورٹیں چھپ رہی ہیں۔

مسلم شہریوں کی ذمہ داری

جہاں تک مسلم شہریوں کا تعلق ہے اس اشتعال انگیز الیکشن میں بھی وہ سنجیدہ اور خاموش رہے ورنہ حکومت اور اس کے کارندوں نے انہیں مشتعل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس اشتعال انگیز مہم کی قیادت خود پی ایم اور ان کے جاں نثار امیت شاہ کر رہے تھے مگر مسلمان کسی اشتعال انگیزی میں نہیں آئے۔ انتخابی مہم کے دوران پی ایم کا ایک الزام کانگریس پر یہ بھی تھا کہ وہ تمام خوشحال لوگوں کی دولت چھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں اور گھس پیٹھیوں یعنی مسلمانوں کو دے دے گی۔ ایک بھاشن میں امیت شاہ نے ہندو شہریوں سے پوچھا کہ اب بتاو آپ کس کو پردھان منتری دیکھنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی کو یا راہل بابا کو؟ اس قسم کے کئی اشتعال انگیز جملے دونوں نے گھڑ رکھے تھے لیکن مسلمان مشتعل نہیں ہوئے نہ ہندووں نے ان باتوں کا کوئی اثر قبول کیا۔ اپنے ہر بھاشن اور ہر بیان میں پی ایم راہل گاندھی کو کوستے تھے یعنی ایک تیرسے دو شکار کرتے تھے یعنی راہل گاندھی کی تحقیر اور مسلمانوں کو مشتعل کرنا۔ ایک بار پی ایم بولے کہ ہندو عورتوں سے ان منگل سوتر چھین کر کانگریس مسلم عورتوں کو دینا چاہتی ہے لیکن ہندو عورتیں ان حملوں پر ہنستی ہوئی دیکھی گئیں۔ حکم راں پارٹی کے شر پسندوں نے 2014 کے آغاز میں مسلمانوں کو شارع عام پر مارنا ان کی ماب لنچنگ کرنا ایک کھیل بنا رکھا تھا۔ مسلم مسافروں کے ٹفن چیک کرنا بھی ایک شرارت تھی لیکن پی ایم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا۔ مغربی یو پی میں محمد اخلاق نامی ایک شخص کے گھر میں گھس کر شر پسندوں نے پہلے تو اس کا کھانا اور فریج چیک کیا پھر اسے وہیں مار ڈالا۔ اس پر ملک کے شریف شہریوں نے خاصا ہنگامہ کیا لیکن پی ایم کے منہ سے اس پر بھی کچھ نہیں نکلا۔ ہاں انہوں نے یہ ذمہ داری ارون جیٹلی کو سونپی تھی کہ اس کی مذمت کریں۔ خود کچھ نہیں بولے۔ مسلم شہریوں نے ایک اچھا کام تو یہ کیا کہ حکومت کی اشتعال انگیزی کے شکار نہیں ہوئے۔ دوسرا کام یہ کہ اس بار انہوں نے بھرپور ووٹنگ کی۔ یہ سبھی جانتے تھے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ خود بی جے پی اور آر ایس ا ایس بھی یہی بات کہتے تھے۔ الا ماشا اللہ کہیں کسی مسلمان نے بی جے پی کو بھی ووٹ دیا لیکن ان کی مجموعی قوت اس کے خلاف رہی۔ نتائج سے یہ بھی ثابت ہوگیا۔