خبرونظر

پرواز رحمانی

ناتجربہ کاری کا نتیجہ

کہا جاتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد پرائم منسٹر مودی بے عمل اور سست پڑگئے ہیں۔ اب ان میں پہلے کی سی جان نہیں رہی۔ اپنے ساتھیوں سے بھی اپنی بات نہیں منوا پارہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی جا رہی ہے کہ انتخابات میں وہ بری طرح ہار چکے ہیں۔ اب کی بار چارسو پار کا بلند بانگ نعرہ لگانے والے مودی 240 پر آکر رک گئے ہیں۔ یو پی میں بڑی بڑی اور پر وقار سیٹیں ہارچکے ہیں۔ بنارس میں خود اپنی سیٹ بڑی مشکل سے بچا پائے ہیں۔ الیکشن کے بعد کسی طرح انہوں نے حکومت تو بنالی اور تیسری بار برسر اقتدار آنے کا خوب بھی پورا ہوگیا ہے لیکن اب انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دو پارٹیوں کو کسی طرح اعتماد میں لیا تھا انہیں دو تین وزارتیں دے بھی تھیں لیکن اس سے پُرپیچ مسئلہ اسپیکرشپ کا آن پڑا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو لوک سبھا کی اسپیکرشپ مانگ رہے ہیں اور بی جے پی (مودی) یہ چھوڑنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہیں۔ اس لیے کہ مودی اپنا آگے کا کھیل اسپیکر کے سہارے جیتنا چاہتے ہیں۔ ادھر دوسرے ساتھی نتیش کمار نے بھی اپنی زبان بدل دی ہے۔ صبح و شام کوئی نہ کوئی خبر مودی کو پریشان کرنے والی پٹنہ سے آجاتی ہے۔اب تازہ خبر یہ ہے کہ چندرابابو نائیڈو کو اسپیکر کے عہدے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور انہیں مرکز سے آندھراپردیش کی ترقی کے لیے درکار کثیر فنڈس کی ضرورت ہے۔
غرض مودی اس قدر پریشان ہیں کہ گٹھ بندھن کو جوڑے رکھنے کا کام انہوں نے راج ناتھ سنگھ کے ذمے کر دیا۔ اب راج ناتھ سنگھ ایک ایک کو منانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مودی کو چونکہ گٹھ بندھن کی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انہیں اول روز سے حکومت کی شکل میں آمریت ملی، اس لیے وہ سمجھ بیٹھے کہ آمریت کی حکومت ہے اس لیے اتنے خود پسند ہوگئے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے ہیں حتیٰ کہ اپنی سرپرست سنگٹھن آر ایس ایس کو بھی۔

پی ایم کی یہ حرکتیں ذمہ دار

پرائم منسٹر کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے بالکل درست ہے۔ جب انہیں حکومت کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا، سنگھ نے انہیں پرچارک کی پوسٹ سے اٹھا کر ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بٹھادیا اور بے پناہ اختیارات دے دیے۔ اس لیے وہ ان اختیاریات کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں سنگھ کی اخلاقیات سے بھی کوئی سروکار نہیں رہا۔ خود پسندی کا عالم یہ ہے کہ جو عہدہ چاہتے ہیں اسے اپنا کر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں خواہ وہ دھارمک ہو یا سماجک۔ کبھی کہتے ہیں بنارس، میں نہیں آیا، مجھے گنگا ماں نے بلایا ہے۔ کبھی خود کو بھگوان گردانتے ہیں، کبھی کہتے ہیں میں بائیولوجیکل نہیں ہوں، مجھے بھگوان نے بھیجا ہے۔ مودی کی ان حرکتوں کی وجہ سے آر ایس ایس ان سے بہت خفا ہے۔ ابھی حال ہی میں انہیں کچھ نصیحت بھی کی ہے۔ مودی کی سیاست سے بیزاری کا اظہار سنگھ نے ڈیڑھ سال قبل آرگنائزر میں کیا تھا جو سنگھ کا ترجمان ہے۔ کہا تھا ’اب انتخابات میں مودی کا چہرہ کام نہیں کرے گا ہر ریاست سے نئی لیڈر شپ ابھرنی چاہیے۔‘ ناگپور میں مودی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ وہاں نتن گڈکری کی چلتی ہے جنہیں مودی نے پارٹی سے الگ تھلگ کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اب بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی اپنے دم پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس پر سنگھ اور بی جے پی کے حلقوں میں کافی ہنگامہ مچا۔ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے، وہاں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی کو وہاں بھرپور کامیابی ملی تھی۔ اس بار بھی پارٹی یہی خواب دیکھ رہی تھی، وہاں کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی بہت اچھل کود کررہے تھے مگر یو پی میں بی جے پی کو پورے ملک میں سب سے بڑی شکست ملی۔ وہاں راہل گاندھی اکھلیش یادو اور پرینکا گاندھی نے اپنی سرگرمیوں سے الیکشن کا حساب کتاب الٹ دیا۔

یہ حکومت گرسکتی ہے

ان باتوں کے علاوہ بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی ایک بہت لمبی فہرست ہے جو پرائم منسٹر کے ذاتی ریکارڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ 2014 میں مودی نے چارج لیتے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور قتل و غارت گری کی مہم چھیڑدی تھی۔ گاو کشی کا ہوا کھڑا کیا جارہا تھا۔ مالداروں کی سرپرستی اور دیے گئے قرض کی معافی کے قصے عام تھے۔ اڈانی اور امبانی کو کاروباری لحاظ سے نوازنے کی باتیں سب کو معلوم ہو رہی رہی تھیں۔ اڈانی سے متعلق ایک غیر ملکی ایجنسی کارپوریٹ آنے کے بعد پوری دنیا میں پی ایم پر تھو تھو ہورہی تھی۔ عورتوں پر مظالم عام تھے۔ پھر کسانوں کے احتجاج کی خبریں پوری دنیا میں پھیل گئی تھیں۔ طلبا کے پیپر لیک کی خبریں ہر طرف عام تھیں۔ منی پور کے واقعات نے پوری دنیاکو ہلاک کر رکھ دیا تھا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے چرچے عام تھے۔ غرض مودی کی عالمی بدنامی اور سرکاری غلط کاریوں نے مودی اور حکومت کو پوری دنیا میں بدنام کردیا تھا۔ مگر پی ایم کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ انہوں نے جرنلسٹوں، اینکروں اور رپوٹروں کی ایک فوج پال رکھی تھی جو 24گھنٹے صرف مودی کے گن گایا کرتی تھی مگر اس کے باوجود شکست ہوئی۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پولنگ پوری دیانت داری سے کی جاتی تو مودی اور ان کی حکومت کو بیس سیٹیں بھی نہ ملتیں۔ ای وی ایم کا قصہ ہنوز زندہ ہے۔ اب لیپا پوتی کرکے جو حکومت بنائی وہ چند ہفتوں کی ہی مہمان معلوم ہوتی ہے جو کسی بھی وقت گرسکتی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار جب موقع ملے، حکومت کو اکھاڑ پھیک سکتے ہیں۔ ادھر راہل گاندھی تو کہ چکے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ حکومت کو کسی بھی وقت گراسکتی ہے۔ عوام اس حکومت کو مسترد کرچکے ہیں۔ مودی کے پاس اخلاقی قوت نہ پہلے کبھی تھی نہ آج ہے، ورنہ وہ چار جون کو ہی دستبردار ہو جاتے۔