خبرونظر

پرواز رحمانی

یہ انتخابات کیسے تھے

آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سنسنی خیز ترین الیکشن 2024 کا تھا۔ لوک سبھا کے اس الیکشن کے آغاز میں کہا جا رہا تھا کہ مودی آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے کیونکہ ان کے مقابلے پر کوئی نہیں ہے لیکن پانچویں سال کے آغاز میں اچانک ایک نوجوان اٹھا اور اس نے ایک سال کے اندر اندر سیاست کانقشہ بدل دیا۔ یہ نوجوان ہے راہول گاندھی جو نہرو گاندھی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ اس نے وہ وہ مسائل اٹھائے جنہیں مودی نے چھوا بھی نہیں۔سب سے بڑا مسئلہ اٹھایا کارپوریٹ کا، جس کے ہاتھ مودی نے آدھا ہندوستان بیچ دیا تھا۔ اڈانی اور امبانی کارپوریٹ کے نمائندے ہیں۔ پھر مسئلہ غریبی اور بے روزگاری عام ہوا۔ نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار تھا۔ جب مودی نے دیکھا کہ بات نہیں بن رہی ہے تو ہندتو کا نعرہ لگا دیا اور اس کے ساتھ مسلم دشمنی پر بھی اتر آئے اور راہل گاندھی کو ان مسائل کا سرغنہ بنایا۔ راہل کو صبح و شام گالیاں دینا مودی کا خاص مشغلہ بن گیا۔ غرض ان مسائل کے ہجوم میں لوک سبھا کے عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور اس کے ساتھیوں نے اپوزیشن پارٹیوں کا انڈیا کے نام سے اتحاد بنایا۔ اس نام نے مودی اور بی جے پی کو مرجھا کر رکھ دیا۔ بی جے پی کا اتحاد این ڈی اے پہلے سے موجود تھا۔ مگر این ڈی اے دبا دبا سا رہا اور انڈیا اتحاد بڑھتا گیا۔ بی جے پی نے باتیں تو بہت لمبی چوڑی پھیلائیں۔ اس بار چار سو پار کانعرہ بلند کیا۔ بنارس سے مودی کو دس لاکھوں ووٹوں سے جتوانے کا دعویٰ کیا۔ راہل اور اکھلیش کو یو پی میں چار چار سیٹوں پر سمیٹ دینے کی بات کہی، گاندھی پریوار کو ملک سے بھگا دینے کا اعلان کیا۔ مسلمانوں کو جی بھر کے کوسا۔ ایودھیا میں رام مندر بھی تیار ہی نہیں ہوا تھا کہ اس کا ادگھاٹن کر دیا۔ ادھر راہل گاندھی اہم اور بنیادی مسائل اٹھاتے رہے لیکن مودی نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ مودی کا میڈیا اور اس کے چمچے مودی کی خوب ہوا بناتے رہے۔ مودی نے خود کے بائیولوجیکل ہونے سے انکار کیا تو گودی میڈیا نے اسے بھی خوب اچھالا اور مودی کو بھگوان کہنے لگے۔ الیکشن جیتنے کی مشین ای وی ایم چمچوں کے ہاتھوں میں محفوظ رہی۔

تمام چالاکیاں ناکام

لیکن ان تمام کوششوں اور چالاکیوں کے باوجود عوام نے مودی اور بی جے پی کو رد کر دیا کیوں کہ اس بار عوام خود فریق بنے۔ ایک طرف مودی اور دوسری طرف عوام، جیسا کہ اپوزیشن اور ذمہ دار شہریوں نے کہا ہے۔ پارٹی بھی کچھ نہ تھی آر ایس ایس نے بھی ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ مودی نے کسی کو سامنے نہیں آنے دیا۔ اپنی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کو الگ تھلگ کر دیا۔ مودی کے ساتھ صرف دو افراد تھے۔ امیت شاہ اور اڈانی مگر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے نمبر پر اڈانی تھے مودی دوسرے نمبر پر تھے، گویا یہ انتخابات گوتم اڈانی نے کرائے۔ وہی حکومت تھے۔ وہی ملک تھے۔ مودی اور اڈانی کو شکست بھی قرار واقعی ہوئی۔ چار سو پار تو بہت دور کی بات ہے ڈھائی سو سیٹیں بھی نہیں ملیں۔ بی جے پی کو کل 239 سیٹیں ملیں مگر 50 تا 55 سیٹیں حلیف پارٹیوں کی تھیں۔ بنارس میں مودی صرف ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے جیتے۔ دس لاکھ سے جیتنا ایک خواب ثابت ہوا۔ ایودھیا کی سیٹ بی جے پی ہار گئی جہاں مودی رام مندر کا ادگھاٹن کیا تھا۔ اتر پردیش میں بی جے پی بری طرح ہاری۔ اتر پردیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ وہیں سے ہو کر جاتا ہے۔ یو پی میں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں۔ مودی اور یوگی دونوں تمام 80 سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ راہل اور اکھلیش کو چار چار پر سیمٹنے والے تھے لیکن بی جے پی کو صرف 31 سیٹیں ملیں۔ اکھلیش کو 37 اور راہل کو چھ سیٹیں ملیں۔ یو پی میں سماج وادی پارٹی یعنی اکھلیش کے لیے بڑا ووٹ بینک یادو اور مسلمان ہیں لیکن اس بار انہوں نے ان دونوں کو برائے نام ٹکٹ دیے یعنی یادو کو پانچ مسلمانوں کو چار۔ پہلے ایک میٹنگ کرکے دونوں کو سمجھا بھی دیا تھا ہم آپ کو زیادہ ٹکٹ نہیں دیں گے۔ اس کی بجائے انہوں نے دوسری باتوں پر توجہ دی لیکن جن یادو اور مسلمانوں کو ٹکٹ دیے گئے وہ سب جیتے گئے۔

یہ تماشا بھی ہوا تھا

اس الیکشن میں بی جے پی نے ایک اور تماشا کھڑا کیا، جیسا کہ وہ ہر بار کرتی رہی ہے۔ اس نے بڑی خوبی سے بی ایس پی لیڈر مایاوتی کو اپنی مدد کے لیے میدان میں اتارا، پانچ چھ مہینوں سے تو وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ ان کی پارٹی تنہا الیکشن لڑے گی پھر خبر آئی کہ وہ انڈیا اتحاد کے ساتھ جا رہی ہیں پھر اس خبر کی تردید بھی آگئی۔ ایسا کئی بار ہوا جو دراصل ایک فریب تھا۔ مایاوتی کو بی جے پی نے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ وہ اس سے نکل ہی نہیں سکتیں۔ مایاوتی سے اپنے دور اقتدار میں یو پی میں کچھ بے قاعدگیاں سرزد ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس اس کی فائلیں موجود ہیں۔ جب بھی بی ایس پی آزاد انتخاب کی بات کرتی ہے حکومت فائلوں کا حوالہ دے دیتی ہے۔ مایاوتی آزادنہ الیکشن اس وقت لڑیں گی جب بی جے پی حکومت چاہے گی۔ الیکشن میں خاص طور سے یو پی کے الیکشن میں مایاوتی بی جے پی مخالف ووٹ کاٹنے کے لیے اپنے امیدوار اتارتی ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی کیا اور تقریباً پچاس سیٹوں پر مسلمانوں اور جاٹوں اور دیگر لوگوں کو ٹکٹ دیے تھے۔ مسلمانوں کو ان حلقوں میں ٹکٹ دیے تھے جہاں سے ان کے جتینے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بنارس میں مودی کے مقابلے پر ایک مسلمان کو ہی ٹکٹ دیا تھا لیکن جیت کہیں نہیں ملی۔ انتخابات میں سب سے برا حال بی ایس پی کا ہی ہوا۔ ووٹروں نے اسے حرف غلط کی مٹاد یا۔ اسی طرح جاٹ بھی اس بار بی ایس پی کے فریب میں نہیں آئے ورنہ مایاوتی کے جذباتی حمایتی تو بی ایس پی کی حکومت کی بات کر رہے تھے۔ گویا اس الیکشن میں مایاوتی، سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں۔ دونوں پارٹیوں کی جیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ یو پی میں بی جے پی کی ہار کی وجہ بھی یہی ہے۔ اب نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی مدد سے مودی کی حکومت بن رہی ہے لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کتنے ہفتے قائم رہے گی۔ کمار اور بابو دونوں منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ وہ آسانی سے مودی کے قابو میں آنے والے نہیں ہیں۔