خبر و نظر
پرواز رحمانی
جب اسرائیل قبضہ جما رہا تھا
پچھتر سال قبل جب برطانیہ اور کچھ دوسرے بڑے ملکوں نے ایک طویل المدت سازش کے تحت عالم عرب کے قلب میں یہودی ریاست کی بنیاد ڈالی تو عرب عوام اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی۔ گویا عالم اسلام نے قبضہ کے پہلے دن ہی اپنا احتجاج نوٹ کروادیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی یہ تحریک جاری رہی اور آج تک جاری ہے۔ ابتدا میں امت مسلمہ اسرائیلی وجود کے خلاف ہے، اسے تسلیم نہیں کرتی۔ جب الفتح تنظیم قائم ہوئی تو اس نے اس تحریک کو بہت پھیلایا۔ یاسر عرفات اس کے لیڈر تھے۔ جب کوئی ان کے سامنے اسرائیل کا نام لیتا تو وہ پوچھتے کون اسرائیل، کیا اس نام کی کوئی مملکت دنیا میں موجود ہے؟ بات یہی تھی کہ کوئی مسلمان اسے تسلیم نہیں کرتا تھا۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ وغیرہ نے کچھ عرب حکم رانوں کو کسی طرح اعتماد میں لے کر اس تحریک کا زور کم کرایا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ امریکہ کے زیر اثر یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیا اور اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ اس معاہدے سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیل اور قوم یہود کو مضبوطی ملی۔ عرب حکم رانوں کی ذاتی پالیسیوں نے اسرائیل کو مزید مضبوط کر دیا۔ امریکہ میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ یاسر عرفات کی الفتح کے ساتھ ہوا۔ عام فلسطینی اور مسلمان اس میں شامل نہیں تھے۔ اسی اثناء میں فلسطین کے اندر حماس نام کی تنظیم پیدا ہوئی جو خالصتاً اسلامی تحریک تھی، جبکہ الفتح کو اسلام اور امت مسلمہ سے کوئی سابقہ نہیں تھا۔ حماس کے شعبوں میں شعبہ دعوت سب سے اہم ہے، یہ سرحد پر رہنے والے یہودیوں کو عام خدمات دیتی ہے۔ ان کی مزاج پرسی کرتی ہے۔ ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ حسب موقع ان سے اسلام کی حقیقت پر بات بھی کرتی ہے۔ یہ انہیں بتاتی ہے کہ اصل دین اسلام ہی ہے۔ حضرت موسیٰؑ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ اسلام، یہودیت اور عیسائیت تینوں کے باپ ہیں۔ حماس کے مسلمانوں کی اس تبلیغ کے نتیجے میں بہت سے یہودی ایمان لے آئے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسرائیل، حماس کی ان سوشل سرگرمیوں کے اثرات سے پریشان ہوکر حماس کی سرحد بند کر دیتا ہے۔ موجودہ جنگ کے دوران بھی حماس نے متعدد نو مسلموں کو پناہ دی ہے۔
عرب بادشاہ تو صرف بادشاہ تھے
مسلم بادشاہوں کو صرف اپنی بادشاہتوں کی فکر رہی۔ عرب ممالک میں تیل دریافت ہوا تو امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کی پوری کوشش رہی کہ وہاں یونیورسٹیاں، تعلیمی ادارے اور تکنیکی ادارے قائم نہ ہونے پائیں۔ امیر شاہوں نے اس کا پورا پورا خیال رکھا۔ متحدہ عرب امارات نے برج خلیفہ بنا کر ساری سہولتیں ملک سے باہر والوں کو دے دیں۔ مقامی باشندوں کو صرف اچھا رہنے اور اچھا کھانے کی اجازت رہی۔ دیگر کاموں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اب سب سے بڑی بادشاہت اسرائیل کی مدد سے دنیا کا سب سے ماڈرن شہر نیوم قائم کر رہی ہے۔ اس شہر سے بھی صرف بادشاہ اور امیر زادے ہی استفادہ کرسکیں گے۔ جو مقامی افراد اس نقشے کے اندر آرہے ہیں انہیں بھگایا جا رہا ہے اور مار دینے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ اس مملکت میں دینی ذہن رکھنے ولوں کو توحید خالص کا لالچ دیا جارہا ہے کہ وہ مملکت کے لیے تشہیری کام کرنے والے ایجنٹوں سے تھوڑا بہت مال لے کر اپنے اپنے ممالک میں توحید خالص کی دعوت کا کام کریں۔ اس کے لیے بحث و مباحثہ بھی ہو تاکہ امت میں انتشار برپا رہے۔ یہ لوگ ائمہ کرام اور فقہا سے سخت بیزار ہیں۔ ان کے نام آتے ہی شرک اور کفر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ان مملکتوں کو فلسطین اور حماس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں بلکہ حماس کے تو وہ دشمن ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ صرف مسجد اقصیٰ سے کچھ لگاو ہے لیکن عمل اس کے لیے بھی ندارد ہے۔ فلسطینی دارالحکومت کا خواب امت مسلمہ ایک زمانے سے دیکھ رہی ہے لیکن اس میں سیکڑوں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔ کئی ممالک بھی یہ کام چاہتے ہیں۔ اب کچھ ملکوں نے فلسطین کے دارالحکومت کو عملاً دیکھنے کا اقدام کیا ہے۔ یہ ممالک ہیں اسپین آئرلینڈ اور ناروے۔ ان ممالک نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کو ایک باقاعدہ ریاست کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہیں۔ اس کا باقاعدہ اعلان دو تین دن میں ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے اسرائیل کو ناراض ہونا تھا، اس نے وہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ اسپین نے یہ بھی کہا ہے کہ تین ملکوں کا یہ فیصلہ نہ اسرائیل کے خلاف ہے نہ حماس کے حق میں بلکہ یہ امن کے حق میں کیا گیا فیصلہ ہے۔ سعودی عرب نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اچھی با ت ہے۔
عرب آج کیا کر رہے ہیں؟
تین ملکوں کے اس فیصلے سے پہلے ایک سو چالیس ملکوں نے ریاست فلسطین کو تسلیم کرلیا تھا۔ مگر اس میں ریاست کے بنیادی حق کی بات نہیں تھی۔ ان تین ملکوں نے بنیادی حق کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا بنیادی حق حاصل ہوگیا ہے۔ امریکہ نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا جبکہ اسرائیل پہلے ہی اسے مسترد کر چکا ہے۔ اس سے حماس او اسرائیل کے مابین جاری جنگ کے تیز ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ فلسطین کو ریاست کا بنیادی حق دیے جانے پر اسرائیل نے کہا ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے شیطان کو انعام سے نوازنا‘‘۔ دیگر ملکوں کے بیانات بھی آرہے ہیں جو زیادہ تر فلسطین کے حق میں ہیں اور کچھ مخالفت میں۔ حق میں بیان دین والے زیادہ تر مسلم ممالک ہیں۔ کچھ غیر مسلم ملک بھی ہیں۔ اسپین، ناروے اور آئرلینڈ اپنے موقف کے دفاع میں بول رہے ہیں۔ اسرائیل کی بد حواسی کی وجہ یہ ہے کہ مزید کچھ ممالک ان تینوں ملکوں کی پیروی کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل پر عالمی دباو بھی بڑھ سکتا ہے۔ جن ایک سو چالیس ملکوں نے فلسطینی ریاست کو اصولی طور پر تسلیم کیا ہے ان میں سے بعض آگے آسکتے ہیں۔ بعید نہیں کہ وہ وقت بھی آجائے یہ تمام ایک سو چالیس ممالک فلسطینی ریاست کا بنیادی حق تسلیم کرلیں گے۔ عرب دنیا میں اسرائیل کے قیام کی نوبت ہی نہ آتی اگر وہ اس وقت غربت میں نہ ہوتے۔ آج جو مال ہاتھ آیا ہے اگر وہ اس وقت آیا ہوتا تو بڑے ملکوں کی یہ سازش کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ مگر نہیں، یہ توقع رکھنا بھی سادہ لوحی ہے۔ گزشتہ صدی میں تیل کی دولت ہاتھ آجانے کے بعد عربوں نے کیا کر لیا۔ احسان کے بدلے ساری دولت امریکہ کو دے دی اور آج بھی دیے جا رہے ہیں۔ جب دولت نئی نئی ہاتھ آئی تھی تو اسرائیل کے خاتمہ پر نہ سہی اپنی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بنانا کون سی بڑی بات تھی۔ مگر نہیں یہ سوچ ہی غلط ہے۔ امریکہ نے انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا۔ عرب پڑھنے بھی جاتے ہیں تو صرف امریکہ، پھر وہاں سے امریکی طور طریقے سیکھ کر آتے ہیں اور دنیا میں فساد پھیلاتے ہیں۔ سب سے بڑی مملکت کا ولی عہد بھی وہیں سے سیکھ کر آیا ہے۔ اللہ امت مسلمہ پر رحمت فرمائے۔