خبرو نظر

پرواز رحمانی

طوفان تھما نہیں
2002ء کے گجرات فسادات پر اٹھنے والا طوفاں ابھی تھما نہیں ہے۔ یہ طوفان بی بی سی کی دستاویزی فلم پر حکومت ہند کی آن لائن پابندی کی وجہ سے اٹھا ہے۔ اس فلم کے پہلے حصے میں جو 17جنوری کو براڈ کاسٹ ہوا تھا، فسادات کے لیے وزیراعظم مودی کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اندرون ملک آن لائن پابندی کا واحد محرک یہی سمجھ میں آرہا ہے۔ ورنہ فلم میں کوئی نئی بات نہیں ہے، وہی حقائق ہیں جنہیں ساری دنیا جانتی ہے۔ حکومت ہند اور وزیراعظم کو تشویش فلم کی عالمگیر نمائش پر ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی شخصیت کے دو پہلو تراش رکھے ہیں۔ ایک پہلو ہے اندرون ملک جہاں انہیں ہندو ہردے سمراٹ کہا جاتا ہے۔ یہ شخصیت گجرات فسادات بعد اچانک بن گئی ہے۔ گجرات کے فسادات سے مودی اور ان کی پارٹی نے بے حد فائدہ اٹھایا ہے اور آج تک اٹھا رہے ہیں۔ دوسرا پہلو ہے ان کی عالمی لیڈر بننے کی خواہش کا ہے۔ وہ خود کو ورلڈ لیڈر تسلیم کروانے کی بہت کوشش کر رہے ہیں لیکن بی بی سی کی یہ فلم اس میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ ویسے گجرات کے فسادات، ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری اور گئو کشی کے نام پر ہونے والے فسادات وغیرہ سے وزیر اعظم دنیا میں پہلے سے بہت بدنام ہیں۔

دوسرے حصہ میں بھی نیا کچھ نہیں ہے
اس دستاویزی فلم کے دوسرے حصے میں 2014 کے بعد کے واقعات کا ذکر ہے۔ یہ واقعات اندرون ملک بھی مشہور ہیں اور بیرونی دنیا بھی ان سے واقف ہے۔ اندرون ملک رونما ہونے والے واقعات سے بی جے پی نہ پہلے پریشان تھی نہ اب ہے کہ یہ اس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم سے سنگھ اور بی جے پی دونوں کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہے۔ پریشانی ہے تو بس اتنی کہ یہ دستاویزی فلم مودی اور انڈیا دونوں کی امنگوں میں روڑے اٹکا سکتی ہے۔ ورلڈ لیڈر بننے کا خواب دھندلا ہوسکتا ہے۔ جس طرح اندرون ملک یہ سوال کیا جارہا ہے کہ آن لائن پابندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اُسی طرح بیرون ملک بھی یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ بی بی سی کو اکیس سال بعد یہ دستاویزی فلم جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وہ اس سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ اس کا ایجنڈا آخر کیا ہے؟ لیکن ان دونوں سوالوں کے جوابات نہ اندرون ملک حکومت دے رہی ہے نہ بی بی سی کی طرف سے کوئی وضاحت ہنوز آئی ہے۔ اندرون ملک بی جے پی والوں کا تو بس ایک ہی کہنا ہے کے بی بی سی نے یہ دستاویزی فلم انڈیا کو ختم کرنے اور سپریم کورٹ کا وقار مجروح کرنے لیے جاری کی ہے۔

برطانیہ کیا چاہتا ہے
سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا میں بی بی سی دستاویزی فلم پر زور دار بحث جاری ہے۔ اول الذکر میڈیا کو تو صرف اپنے وزیراعظم کی عالمی امیج کی فکر ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہور ہے ہیں۔ بی بی سی یعنی برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملہ میں دونوں فریقین کی بات دیانتداری کے ساتھ پیش کر دیتی ہے۔ گویا بڑی حد تک یہ غیر جانبدار ادارہ ہے۔ 2002ء میں جب گجرات میں خوں ریزی جاری تھی۔ برٹش ہائی کمیشن، برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے اس یکطرفہ مار دھاڑ کا نونس لیا تھا اور ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ موجودہ دستاویزی فلم دراصل اُسی پورٹ پر مبنی ہے۔ جیک اسٹرا نے اس وقت بھی انڈیا کو اپنا دوست بتایا تھا اور اسی لیے فسادات پر تشویش ظاہر کی تھی۔ بی بی سی ایک آزاد نشریاتی ادارہ کہا جاتا ہے لیکن اس کے تمام مصارف اور اس کی ضروریات حکومت برطانیہ برداشت کرتی ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بی بی سی برطانوی حکومت کے اثر سے بھی آزاد ہے۔ گجرات خوں ریزی کی رپورٹ دوبارہ جاری ہونے پر بعض ماہرین کہہ رہے ہیں کہ برطانوی حکومت انڈیا کو عالمی لیڈری کے قابل نہیں سمجھتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ انڈیا کے عالمی قائد کے طور پر ابھر آنے سے ملکوں کی جمہوریت اور غریب اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے ۔