خبر و نظر

پرواز رحمانی

ایودھیا پر کیا ہو رہا ہے
ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے شور میں بحث برابر جاری ہے کہ یہ تقریب مذہبی ہے یا غیر مذہبی؟ دانشوروں کے مطابق یہ تقریب غیر مذہبی ہے کیونکہ یہ ہندو روایات اور شاستروں کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی بڑی سیکڑوں باتیں بھی ہیں جو روایات کے خلاف بتائی جا رہی ہیں۔ دھرم شاستروں اور شنکر آچاریوں کی باتیں بھی دہرائی جا رہی ہیں۔ گویا سبھی مندر اور اس کی افتتاحی تقریب کو درست سمجھ کر بات کر رہے ہیں۔ مگر کچھ دانشور ایسے بھی ہیں جو مندر کے بنیادی تنازعہ پر بات کرتے ہیں اور اسے غیر قانونی بتاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سدھارتھ وردا راجن اور دوسرے اپوروا نند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مندر ایک قدیم اور مکمل قانونی مسجد کو زور و زبردستی اور تشدد کے ذریعے ہندووں کی بتایا گیا ہے۔ اس لیے اس کی بنیاد ہی غیر قانونی اور نا جائز ہے۔ لیکن یہ بات کوئی بھی نہیں کہہ رہا ہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ اس وقت کے قانون و رواج کے مطابق بنی تھی۔ اس مقدمے میں دو پہلو تھے۔ ایک فوجداری تھا یعنی کچھ لوگوں پر مقدمہ قائم ہوا اور اس کی سماعت جاری تھی اور دوسرا ملکیت کا یعنی اس بات کا کہ اس جگہ پر مالکانہ حقوق کس کے تھے؟ لیکن سپریم کورٹ نے فوجداری پہلو کو چھوڑ کر صرف ملکیت کے پہلو پر توجہ دی اور یہ کہہ کر فیصلہ ہندووں کے حق میں سنا دیا کہ مجوزہ مندر سے لاکھوں ہندووں کی آستھا وابستہ ہے۔ سپریم کورٹ نے ہر مرحلے پر دوسرے فریق کا ساتھ دیا، مقفل مسجد کا تالا کھلوا کر اسے ایک فریق کے حوالے کیا اور اس کی مسجد کی حیثیت ختم کر دی اور ٹرسٹ بنانے کی اجازت دی وغیرہ۔ سدھارتھ وردا راجن جرنلسٹ ہیں۔ انگریزی روزنامہ ہندو اور دیگر اخبارات میں برسوں کام کیا اور بہت بے لاگ مبصر ہیں۔ پروفیسر اپوروا نندا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ حالات پر بے لاگ تبصرے کرتے ہیں۔ ایودھیا کے بارے میں دونوں کی پختہ رائے ہے کہ تقریب کی بنیاد ہی غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر سماجی ہے۔

عدالت عظمیٰ کا فیصلہ
مندر کے تعمیراتی کاموں کے لیے ٹرسٹ بنانے کا حکم بھی سپریم کورٹ ہی نے دیا تھا اب جو اس کام میں متعدد رکاوٹیں پڑ رہی ہیں تو ان میں سے ایک اس ٹرسٹ میں پھوٹ بھی ہے۔ کئی مہا پرشوں نے اس ٹرسٹ پر اعتراضات اٹھائے ہیں اس میں زیادہ تر ممبر آر ایس ایس کے ہیں۔ عدالت عظمیٰ ان باتوں کا نوٹس نہیں لے رہی ہے۔ غرض عدالت نے اپنا پورا وزن مندر کے حق میں ڈال دیا ہے۔ سدھارتھ وردا راجن اور اپوروا نند نے یہی سوال اٹھایا ہے کہ ایودھیا کا پہلا سوال تو یہی ہے کہ مسجد کو غیر قانونی طور پر توڑا گیا ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ پانچ ججوں کی بنچ نے فیصلہ سنایا تھا۔ بنچ کے سربراہ کو راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا گیا ہے۔ اس بنچ میں پانچ مذاہب کے نمائندے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہوا تھا اسی لیے فیصلے کے آخر میں کسی کے دستخط نہیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مسلم فریق نے بابری مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا تھا۔ 1980 میں جب مسجد، مندر پر بحث شروع ہوئی تو مسلم فریق نے ہر قدم پر اس بحث میں حصہ لیا لیکن فریق ثانی یعنی آر ایس ایس اور وشوہندو پریشد کی حکمت عملی یہ تھی کہ جب وہ دلیل کے ساتھ بات نہ کر پاتے تو یہ کہہ کر ہاتھ جھاڑ لیتے کہ یہ ہندووں کی آستھا کا معاملہ ہے۔ اس پر کورٹ میں یا کہیں اور بحث نہیں ہو سکتی یعنی مسلمانوں کو مسجد سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ عدالت سے باہر کی بحث میں فریق ثانی نے سنجیدگی کے ساتھ کبھی حصہ لیا ہی نہیں۔ وہ بس آستھا کی بات کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل سالہا سال تک رہا۔ بالآخر مسلم پرسنل لا بورڈ نے طے کیا کہ یہ لوگ اسی طرح ٹالتے اور لٹکاتے رہیں گے اس لیے مناسب ہوگا کہ معاملہ کو سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ لہذا مسلم فریق نے ایک میٹنگ کے بعد اعلان کر دیا کہ اب فیصلہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اس نے بار بار اعلان کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے لیے قابل قبول ہوگا۔ فریق ثانی کو بھی یہ بات بتادی گئی۔

بحث ہونی چاہیے
مگر یہ توقع نہیں تھی کہ فیصلہ اس قدر عجیب و غریب ہوگا۔ ایک طرف یہ کہا جائے گا کہ مندر توڑے جانے کی بات بالکل غلط ہے۔ بابری مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں کوئی مندر نہیں تھا۔ یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ 1949 کی ایک رات وہاں مورتیاں چپکے اور چوری چھپے رکھی گئیں تھیں۔ مسلم فریق نے وہاں کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا تھا۔ بابری مسجد وہاں وقت کے قانون اور سوم و رواج کے مطابق بنائی گئی تھی۔ سدھارتھ وردا راجن اور پروفیسر اپوروا نندکا مشترک احساس ہے کہ اس مقدمہ میں سپریم کورٹ نے ہر فوجداری کیس کا فیصلہ بھی ہونا تھا لیکن فاضل ججوں نے فوجداری کیس کو یکسر نظر انداز کر دیا اور مقدمہ کو صرف ملکیت پر مرکوز کر دیا۔ فیصلہ سن کر تمام مسلمان اور قانون کے ماہرین سکتے میں آگئے لیکن مسلمانوں نے اسے مسئلہ یا تنازع نہیں بنایا۔ اب ایودھیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی بھی ہورہی ہے لیکن مسلمان بحیثت مجموعی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بعض علما اور لیڈروں نے ٹی وی کے مباحث میں فیصلہ پر سوالات اٹھائے ہیں، وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے ہیں اور کر بھی نہیں سکتے۔ سدھارتھ وردا راجن اور اپورا نند کی گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ رام مندر پر مختلف پہلووں سے بحث تو ہو رہی ہے لیکن بنیادی مسئلے پر بات کوئی نہیں کر رہا ہے۔ سناتن دھرم کے کروڑوں اور شنکر آچاریوں میں سے بھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ گویا ان کے نزدیک یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ جوں کا توں باقی ہے۔ اس پر سیر حاصل بحث ہونی باقی ہے۔ بیرونی مبصرین بھی یہی کہتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرے بھی خوب ہوئے ہیں۔ہر مرحلے پر فریق ثانی کا ساتھ دیا ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد مسلمان ہی کیا، دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ کیوں کہ خود کورٹ کی باتوں کے مطابق ملکیت کا حق مسلم فریق کا تھا۔ ساتھ ساتھ