خبرونظر
پرواز رحمانی
الیکشن کا اصل مسئلہ
لوک سبھا کے عام انتخابات کا نوٹیفکیشن اگرچہ ابھی جاری نہیں ہوا ہے لیکن ملک میں شور شروع ہوگیا ہے۔ یہ شور کئی مہینوں سے جاری ہے۔ پہلے ایک سوچا سمجھا نعرہ لگایا جاتا تھا ’’مودی کے بعد کون‘‘ اب یہ نعرہ منسوخ ہوگیا ہے اور کہا جارہا ہے یہ انتخابات پی ایم مودی اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے درمیان ہوگا۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ انتخابات کے ایشوز کیا ہوں گے۔ کن مسائل پر یہ الیکشن لڑے جائیں گے۔ اب تک تو کئی ایک مسائل گنوائے جاتے تھے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے مسائل، پہلوان لڑکیوں کا مسئلہ، فوج میں چار سال بھرتی کا مسئلہ، صحت کے مسائل وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب ایک ہی بات بڑے پیمانے پر کہی جارہی ہے۔ انتخابات، ای وی ایم سے ہوں گے یا پہلے کی طرح بیالٹ پیپر استعمال کیے جائیں گے۔ اس مسئلہ نے پانچ ریاستوں کے الیکشن کے بعد زور پکڑا ہے۔ ان انتخابات کے دوران عام رائے یہ تھی کہ چار ریاستوں میں کانگریس کی جیت یقینی ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ۔ اول الذکر تین ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی کا ہر کسی کو یقین تھا۔ خود بی جے پی کے لوگ اقرار کرتے تھے کہ تینوں ریاستوں میں ان کی حالت خراب ہے۔ کانگریس میں نئے نئے ممبروں کی آمد کی لہر چل رہی تھی جبکہ بی جے پی سے لوگ الگ ہو رہے ہیں۔ غرض تینوں ریاستوں میں کانگریس ہی کانگریس کوئی اور پارٹی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن نتائج نے سب کو دم بخود کردیا۔ تینوں ریاستوں میں بی جے پی بھاری اکثریت سے ’’کامیاب‘‘ ہوئی۔ اسی لیے مبصرین اور عام لوگوں نے نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار اول گھڑی سے شروع کردیا ہے۔ کانگریس کے لیڈر دگ وجئے سنگھ نے نتائج کے آغاز ہی میں کہہ دیا کہ یہ ای وی ایم کا کمال ہے۔ مجھے پہلے سے شبہ تھا کہ الیکشن ای وی ایم کے ذریعے جیتے جائیں گے۔ میں 2003 سے اس مشین کے خلاف ہوں۔ یہ مشین ایک دھوکا ہے۔
یہ بات فی الفور کیوں نہیں اٹھی؟
تین ریاستوں کے نتائج کے فوراً بعد ای وی ایم کا مسئلہ اس لیے نہیں اٹھایا گیا کہ بی جے پی اسے اپوزیشن کا پروپیگنڈا بتائے گی اور اس طرح اپنی بدعنوانیوں کو چھپا لے گی اور یہ ہوا بھی۔ جیسے ہی مخالف لیڈروں اور عام لوگوں نے مشین پر بولنا شروع کیا سنگھ پریوار نے اس کا شور مچایا لیکن بعد میں سیاسی پارٹیوں اور رائے دہندگان کے علاوہ سیول سوسائٹی کے ایک بڑے حصے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے وکیلوں، دانشوروں اور شہریوں کے مختلف حلقوں نے اس پر بولنا شروع کیا تو بات بڑھتی چلی گئی اور سپریم کورٹ تک پہنچ گئی۔ سنجیدہ اور دیانتدارانہ جرنلسٹوں نے تبصرے شائع کیے۔ الیکشن کمیشن کے پاس تین ریاستوں کے ہزاروں رائے دہندگان نے شکایات بھیجیں۔ یہ آواز عام طور سے آنے لگی کہ جب ترقی یافتہ ملکوں نے ای وی ایم کا استعمال منسوخ کر دیا ہے تو ہمارے ملک کی حکومت کیوں اسے لے بیٹھی ہے۔ اس دباو کے بعد اب کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی اس مسئلے پر بولنا شروع کر دیا ہے۔ کانگریس نے ای وی ایم کے خلاف اپنی ایک میٹنگ میں باقاعدہ تجویز منظور کی ہے۔ بی ایس پی کی لیڈر مایاوتی نے ایک بار پھر مشین کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی بول چکی ہیں۔ مگر مایاوتی تو وہ واحد لیڈر ہیں جنوں نے 1914کے نتائج کے فوراً بعد کہہ دیا تھا کہ یہ سب ای وی ایم کا کمال ہے۔ 19 لاکھ ای وی ایم مشینوں کے لاپتہ ہوجانے کی خبر بھی عام ہوچکی ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں سب سے بڑا مسئلہ ای وی ایم کا ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیاں پورا زور اس کی مخالفت پر دیں گی جبکہ سرکاری پارٹی اسے بچانے کی کوشش کرے گی اور فریقین نے اپنا اپنا کام شروع بھی کردیا ہے۔
کوئی بڑا کھیل ہوسکتا ہے
کہا جاتا ہے اور بالکل درست کہا جاتا ہے کہ بی جے پی کے پاس الیکشن جیتنے کے سیکڑوں طریقے ہیں۔ ممبروں کی خریدو فروخت کے لیے بے پناہ دولت ہے۔ اگر ایک مسئلہ اس کے ہاتھ سے نکل بھی جائے تو وہ کوئی دوسرا بکھیڑا کھڑا کر دیتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ طریقہ کار میں دیانت و امانت کی قائل بھی نہیں۔ گویا آر ایس ایس کے جتنے ذیلی ادارے ہیں اتنے ہی اس کے طریقے بھی ہیں اس لیے وہ بے فکر رہتی ہے۔ مسئلہ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کا ہے جو ملکی دستور کے مطابق کام کرتی ہیں۔ ای وی ایم میں کسی اپوزیشن پارٹی کا عمل دخل نہیں۔ ای وی ایم پوری طرح بی جے پی کے ہاتھوں میں ہے بلکہ اس کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔ پھر الیکشن کمیشن اور اس کی پوری مشنری نہیں بولتی لیکن ای وی ایم کے خلاف ضرور بولتی ہے لیکن وہ بھی الیکشن کے بالکل قریب جب ای ڈی، الیکشن کمیشن، انکم ٹیکس وغیرہ کے اختیارات منجمد ہوتے ہیں۔ اب سنتے ہیں کہ مس مایاوتی انڈیا اتحاد میں شمولیت کا ذہن بنارہی ہیں لیکن اس شرط پر کہ پولنگ سے پہلے ہی وزیر اعظم انہیں نامزد کردیا جائے۔ صورت یہ ہے کہ جو بھی پارٹی مایاوتی کو نامزد کرے گی وہ اسی کی طرف جائے گی۔ اب یہ شرط کون سی پارٹی قبول کرسکتی ہے۔ مایاوتی کے علاوہ نتیش کمار، اروند کیجریوال اور ممتا بنرجی بھی امیدوار ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے داو پر کام کررہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ای وی ایم کسی کے ساتھ مفاہمت کرلے لہٰذا اپوزیشن کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔ ای وی ایم جب ایک طاقت ہے تو وہ حکومت کے علاوہ بھی کسی کے ساتھ کھیل کرسکتی ہے۔ ای وی ایم ہندوستانی سیاست کا ناسور بن چکی ہے۔ وہ کسی کے ساتھ کوئی کھیل کر سکتی ہے۔ 2024 بھی میں ایسا ہی کوئی کھیل ہوگا۔