خبرونظر

پرواز رحمانی

جب این سی پی بنی تھی
لگ بھگ بیس سال قبل جب کانگریس کے ایک مضبوط لیڈر شرد پوار نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے نام سے اپنی علیحدہ پارٹی بنائی تو اس کی وجہ یہ بتائی کہ کانگریس پارٹی غیر ملکی لیڈر کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ سونیا گاندھی اس وقت کانگریس کی صدر تھیں۔ نیشنلسٹ پارٹی بنیادی طور پر مراٹھوں کی پارٹی تھی اس لیے کہ شرد پوار مراٹھا لیڈرتھے لیکن انہوں نے اپنے ساتھ دو اور لیڈروں کو شامل کرلیا۔ بہار کے طارق انور اور میگھالیہ کےپی اے سنگما انہیں لوگ عمرو، اکبر، انتھونی کا نام دینے لگے۔ لیکن عملاً پارٹی مہاراشٹر کے مراٹھوں کی رہی۔ بعد میں اتحاد کا دروازہ کھل گیا اور دونوں پارٹیاں مہاراشٹر میں خاص طور سے متحد ہوکر الیکشن لڑنے لگیں۔ آج وہی صورت ہے۔ البتہ اس دوران بی جے پی نے اپنا آپریشن لوٹس استعمال کیا۔ شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار کی مدد سے نیشنل کانگریس میں پھوٹ ڈلوادی۔ اجیت پوار کچھ ممبروں کو ساتھ لے کر بی جے پی کے ساتھ مل گیا۔ تقریباً تین سال قبل یہ پھوٹ پڑی تھی۔ جب سے مہاراشٹر میں ایک ناتھ شنڈے کی حکومت قائم ہے اور اجیت پوار کا پورا گروپ اس کے ساتھ ہے۔ اجیت پوار کے علاوہ مخالف گروپ میں پرفل پٹیل، چھگن بھوجبل، حسین مشرف وغیرہ بھی گئے تھے وہ سب اب بھی وہیں ہیں اور شندے سرکار میں آزاد گروپ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ شرد پوار سے الگ ہونے کے بعد ویسے تو اجیت پوار نے ان سے کئی بار ملاقات کی جس سے یہ اندازہ کیا جاتا رہا ہے کہ دونوں گروپ بعد میں ایک ہونے والے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم نے خود شرد پوار کو ساتھ لینے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔

جو لوگ الگ ہوئے تھے
بی جے پی کے آپریشن سے مہاراشٹرا سرکار کا جو گروپ الگ ہوا تھا اس میں وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور نیشنلسٹ پارٹی کے چالیس ممبر شامل تھے۔ سرکار اپنے قیام کے بعد سے اب تک بحران کا شکار رہی۔ شکار اب بھی ہے جب سپریم کورٹ میں کچھ ممبروں کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ سماعت ہوچکی ہے، فیصلہ سنانا باقی ہے، جوڑ توڑ اور ممبروں کو خرید کر بنائی گئی حکومت کو بہرحال گرنا ہے۔ ویسے بھی شرد پوار کی پارٹی سے نکلے ہوئے ممبروں کے لیے آر ایس ایس کی پارٹی کے ساتھ رہنا مشکل ہے۔ وہ ممبر شرد پوار کے خیالات اور پالیسیوں کے حامی ہیں۔ ابھی 21دسمبر کو نئی دلی میں مسلمانوں کے ایک پروگرام میں پرفل پٹیل وغیرہ نے شرکت کی اور بہت زور دار بھاشن دیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اقلیتوں کے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم اقلیتی بچوں کی تعلیم پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ ہماری پارٹی چاہتی ہے کہ تمام اقلیتیں اس ملک میں سب کے ساتھ ترقی کریں۔ یہ بیان خوب ہے اور ایک ایسی پارٹی کے لیے ہے جو آر ایس ایس کی پارٹی سے متحد ہے، کون نہیں جانتا کہ آر ایس ایس کی پارٹی کی حکومت اترپردیش، اتراکھنڈ ہریانہ وغیرہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہی ہے۔ ان کے مکان پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ ان کی دوکانیں اور ٹھیلے توڑے جارہے ہیں۔ ذبیحہ بند کیا جارہا ہے۔ اور بہت کچھ کیا جارہا ہے۔ اور اجیت پوار کی پارٹی اسی پارٹی کی ایک ریاستی حکومت چلارہی ہے اور اس کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ایک سیکولر پارٹی ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے سننے والوں کو تعجب نہ ہوگا۔ حقیقت تو تب معلوم ہوگی جب لوگ عملاً اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ پرفل پٹیل پہلے مہاراشٹر ہی میں یہ سب کرکے دکھلادیں جیسا کہ وہ کہہ رہے ہیں۔

اقلیتوں کو فریب نہ دیں
ایک بنیادی سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ کی پارٹی سیکولر اور مسلم نواز ہے تو وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ وابستہ ہی کیوں ہوئی۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ بی جے پی کیا ہے اور ملک میں کیا کررہی ہے اور پھر پرفل پٹیل کے تازہ بیان کو بی جے پی والے تسلیم کرلیں گے۔ حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے مابین سارا جھگڑا تو یہی ہے کہ حکمراں پارٹی ملک کا دستور تمام قدیم روایات بدل کر ملک کو برباد کردینا چاہتی ہے۔ انڈیا گٹھ بندھن چاہتا ہے کہ ملک میں اپنی قدیم رویات اور اپنے دستور پر قائم رہے۔ مہاراشٹر سے نیشنلسٹ کانگریس اور شیوسینا اور کانگریس اسے بچانا چاہتے ہیں۔ پرفل پٹیل کے ایک بھاشن سے کیا ہوگا۔ اچھا یہ ہے کہ جو لوگ شیوسینا اور نیشنلسٹ کانگریس گئے ہیں وہ واپس آجائیں۔ ایسے بھی ان ممبران پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی تلوار لٹک رہی ہے اگر وہ گرگئی تو پھر یہ لوگ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ اجیت پوار نے اپنے چاچا شرد پوار سے جھگڑا مول لے لیا۔ ان کی پارٹی کو توڑدیا۔ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس کی بہت بڑی اکثریت اب شرد پوار کے ساتھ ہے۔ اسی طرح بال ٹھاکرے کی اصل شیوسینا بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہے۔ ان میں سے جو لوگ بی جے پی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، علانیہ جائیں۔ جن لوگوں کو ای ڈی کا ڈر ہے، وہ بی جے پی سے بات بھی کرسکتے ہیں لیکن خود کو سیکولر بتانے کا ناٹک کرکے اقلیتوں کو فریب نہ دیں۔ بی جے پی کا باقاعدہ ساتھ دینے والوں کو اقلیت کا کوئی فرد سیکولر تسلیم نہیں کرے گا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے۔