خبرونظر

پرواز رحمانی

وزیر اعظم اپنا طریقہ بدلیں

پانچ ریاستوں کے انتخابات ختم ہوتے ہی لوک سبھا کے عام انتخابات کی مہم نے زور پکڑ لیا ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کا انڈیا اتحاد دونوں جوش میں ہیں۔ بی جے پی ویسے بھی ہمیشہ ہر وقت انتخابی موڈ میں رہتی ہے۔ 2024 کے الیکشن کی تیاری وہ پانچ سال سے کر رہی ہے۔ 2023 انتخابی مہم میں بی جے پی کے جیتنے کی کسی ریاست میں امید نہیں تھی کیونکہ پانچ میں سے چار بڑی ریاستوں میں کانگریس کی ہوا تھی۔ بی جے پی کے عام سپورٹر مایوس تھے لیکن پارٹی کو حیرت انگیز کامیابی ملی۔ ملنی ہی تھی، پارٹی کی خاموش حمایتی مایاوتی تک نے کہہ دیا کہ یہ ای وی ایم کا کمال ہے۔ دوسری پارٹیاں اور سیاسی لیڈر بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ نتائج کے بعد تبصروں میں بہت سوں نے کہا ہے کہ جب تک ای وی ایم موجود ہے اور الیکشن کمیشن سرکاری پارٹی کے ہاتھوں میں ہے، بی جے پی کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ اس بار تو آر ایس ایس کے لوگ بھی مایوس تھے کہ اب مودی کے چہرے پر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے لیکن مودی اپنی جگہ مطمئن تھے۔ 15؍ اگست کو لال قلعہ سے اعلان کر رہے تھے کہ آئندہ سال پھر آوں گا۔ ظاہر ہے وہ الیکشن کمیشن اور الیکشن ووٹنگ مشین کا پاور تھا۔ سیاسی پارٹیاں ای وی ایم کا مسئلہ شاید اس لیے نہیں اٹھا رہی ہیں کہ ان کی کمزوری بھی یہی ہے۔ جب وقت ملتا ہے تو ہر پارٹی الیکشن کمیشن اور ووٹنگ مشین استعمال کرتی ہے۔ سنا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کا وہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو صرف وزیر اعظم لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کوئی ایک سرکاری آدمی یا وزیر پر مشتمل کر دیا گیا تھا۔ تازہ خبر ہے کہ اب پہلے کی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی الیکشن کمیشن میں ہوں گے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اب الیکشن کمیشن میں سرکار کی من مانی نہیں چلے گی۔ 2024 کے انتخابات میں چیف جسٹس بھی الیکشن کمیشن کے پینل میں ہوں گے۔

یہ کام صبر آزما ہے
بی جے پی یعنی آر ایس ایس کی منصوبہ بندی بہت طویل المدت ہوتی ہے جس طرح صیہونیوں نے کئی صدیوں پہلے تیار کرلیا تھا اور اب اس پر کام کر رہے ہیں۔ مشرق اوسط میں جدید ترین شہر کی تعمیر اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں سنگھ جو کام کرنا چاہتی ہے اس کی پلاننگ بھی 1930 کی دہائی میں کرلی گئی تھی۔ اس منصوبے میں زور اب پیدا ہوا ہے۔ ملکی آئین کو کالعدم کرنے کی کوشش، ذاتوں کو مضبوط بنانے کا کام، غیر سناتنی مذاہب کو مٹانے اور ان کو باہم لڑانے کی کوششیں، یہ سب ایک ہی کام ہے۔ پارلیمانی سیاست اور اسے کامیاب بنانا اس کام کا چھوٹا سا حصہ ہے، جو سنگھ کے لیے اب کوئی مشکل نہیں۔ جو لوگ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں پہنچ کر کچھ اچھل کود کرنا چاہتے ہیں، وہ سنگھ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ انہیں کام کے مواقع دینا سنگھ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہیں کام کے مواقع دینا سنگھ کے کام کا حصہ ہے۔ جو لیڈر صرف اپنے گروپوں اور ذاتوں کے لیے کام کرتے ہیں وہ تو سنگھ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ معاون ہیں۔ اپوزیشن میں راہول گاندھی نے محبت کی دکان کے نام سے جو نعرہ بلند کیا ہے وہ کچھ معتدل ہے، اس میں جان بھی ہے لیکن کیا ذات برادری اور گروپوں کے لیڈر اسے کامیاب ہونے دیں گے، اس میں شبہ ہے۔ راہول گاندھی نے کارل مارکس اور گاندھی کی سطح کا کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور یہ آسان نہیں ہے۔ صدیاں لگ جاتی ہیں۔ منفی اور تخریبی کام جلد ہوجاتا ہے۔ اس میں زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ مثبت اور تعمیری کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے اس میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے وقت بھی لگانا پڑتا ہے۔ تاریخ ساز شخصیات کے حالات بتاتے ہیں کہ صدیاں گزر جاتی ہیں وہ اپنے گھر کے دو افراد کو اپنا ہمنوا نہیں بناسکے۔

سنگھ یہ کام کرے
سنگھ کے کام کے بارے میں مبصر راکیش پاٹھک جی کا کہنا ہے اگر انتہائی تگ و دو کے بعد مقصد حاصل ہو بھی جائے تو اس کی عمر کیا ہوگی؟ سو سال دو سو سال، تین سو سال اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کوئی اور گوتم بدھ یا محمد صاحب جیسا شخص پیدا نہیں ہوگا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر محمد صاحب پیدا ہوتے ہیں تو (اور میں موجود رہا تو ان کی پیروی کروں گا اور مجھ جیسے سبھی لوگ یہ کریں گے، تمہارے کام کا کیا ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ کام وہ کیا جائے جس میں پائیداری اور استحکام ہو۔ جذباتی کاموں میں کوئی استحکام نہیں ہوتا۔ اس ملک کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں یہ کام موجود ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اسکام کے نام لیوا اور عملاً کرنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن انہوں نے نہ ماضی میں اس کا حق ادا کیا نہ آج کر رہے ہیں۔ ایک جماعت ہے جو صرف اپنی نجات اور آخرت میں اپنی جنت کو یقینی بنانا چاہتی ہے، باقی انسانوں کی اسے کوئی پروا نہیں۔ کچھ لوگ انفرادی طور پر یہ کام کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ تمام انسانوں کو خاص طور سے سنگھ کو اس کام کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس کے پاس بہت کام کا بڑا ڈھانچہ ہے اور بہت بڑی تنظیم ہے۔ اگر اسے یہ ہدایت مل جائے تو بہت بڑا کام ہوسکتا ہے۔ سنگھ کو خود بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اپنے تصور کے کام میں اس نے ایک سو سال صرف کر دیے۔ اب اسے کچھ اور سوچنا چاہیے۔ جو لوگ محدود پیمانے پر یا انفرادی طور پر اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ وہ سب ایک ساتھ آئیں اور سب سے پہلے آر ایس ایس کے ساتھ رابطہ قائم کریں۔ اس سے تبادلہ خیال کریں۔ عین ممکن ہے اس کے نتیجہ میں کوئی عملی شکل پیدا ہوجائے اور ملک کا نقشہ ہی بدل جائے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے کام اجتماعی سوچ کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔