خبرونظر

پرواز رحمانی

ایک غیر معمولی دستاویز
سن 2002 میں گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس کے ایک کوچ میں آتشزنی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں کئی افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے فوراً بعد ریاست میں بڑے پیمانہ پر خوں ریز فسادات ہوئے تھے۔ اسی دن وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی نے ان فسادات کی مذمت کی تھی اور رام مندر آندولن بند کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔ ان کے اس بیان میں یہ اشاره بھی صاف تھا کہ یہ فسادات رام مندر آندولن کی وجہ سے ہور ہے ہیں۔ باجپئی جی کا یہ بیان اسی سہ پہر کو صرف ایک بار آل انڈیا ریڈیو پر سنا گیا تھا۔ وہ شاید دور درشن پر بھی آیا تھا مگر بعد کی نشریات میں یہ بیان کبھی نہیں آیا۔ میڈیا بالکل خاموش تھا۔ گجرات میں فسادات منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ہوے تھے۔ ٹرین کے واقعے اور فسادات کے بعد میڈیا نے بھی بہت کچھ کہا اور لکھا۔ انٹرنیشنل میڈیا نے تو بہت لکھا اور آج تک لکھ رہا ہے اس لیے کہ وہ فسادات منظم اور یکطرفہ تھے جن میں ڈھائی تا تین ہزار مسلمان مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ نیز فسادات میں ریاستی حکومت اور حکم راں پارٹی کا نام بڑے پیمانے پر لیا جا رہا تھا۔ اب دنیا کے سب سے مشہور نشریاتی ادارے بی بی سی نے گجرات کے فسادات پر ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس کا موضوع ہے ’’مسلم اقلیت اور وزیر اعظم مودی کے درمیان کشیدگی پر ایک نظر‘‘

منظم مہم کا حصہ
اس دستاویزی فلم میں گجرات کے فسادات کے لیے وزیر اعظم مودی کو بلا واسطہ ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت برطانیہ نے بھی ان فسادات کی انکوائری اپنے طور پر کرائی تھی اور فسادات کے لیے گجرات کی حکومت کو براہ راست ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس دستاویزی فلم میں اسی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس فلم پر ’’دی وائر‘‘ نے بھی روشنی ڈالی ہے۔ بتایا ہے کہ رام مندر کے نام پر برپا کیا جانے والا یہ فساد نسلی صفائے کی مہم کا حصہ تھا۔ برطانوی حکومت اس فساد سے بہت پریشان تھی اور اس کے وزیر خارجہ اس کا جائزہ گہرائی کے ساتھ لے رہے تھے، بالآخر انہوں نے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی جس نے کئی سنسنی خیز انکشافات کیے۔ اس میں نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ برطانیہ کے علاوہ کچھ دوسرے ملکوں نے بھی اس فساد کا نوٹس لیا۔ ٹرین واقعے کے بعد ہونے والے فسادات کے دوران ہندوستان ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ فسادیوں نے خوں ریزی کا منصوبہ چند ماہ بعد کے لیے بنایا تھا مگر ٹرین کے واقعہ سے انہیں حوصلہ مل گیا اور انہوں نے اس سے فائدہ اٹھا کر ہی فسادات کروائے تھے۔

ذکر زندہ رہے گا
یہاں ہندوستان میں حکومت ہند اور حکمراں پارٹی نے انکوائری میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ کیسے لیتی؟ قاتل اور منصف ایک ہی تھے، خون کا دعوٰی کس پر کیا جاتا۔ البتہ کچھ آزاد ایجنسیوں اور گروپوں نے حقائق کا پتہ لگانے کی بہت کوشش کی مگر حکومت اور حکم راں پارٹی کے ہوتے کوئی نتیجہ نہ نکلنا تھا نہ نکلا۔ رام مندر آندولن کا آغاز ایل کے اڈوانی نے رام رتھ یاترا سے کیا تھا جس سے انہیں بہت شہرت ملی۔ لیکن بعد میں آنے والے ان کے ساتھیوں نے انہیں معاملے سے الگ تھلگ کرکے رام مندر کا پورا کریڈٹ خود لے لیا۔ اس کے بعد جمہوریت کی پامالی اور ایمرجنسی کے نفاذ کے اندیشوں پر اڈوانی کے کچھ ہلکے پھلکے بیانات آئے لیکن 2002 کے فسادات پر انہوں نے بھی کوئی خاص بات نہیں کہی۔ ان فسادات کو حکومت ہند کی دبا دینے کی کوشش سے اندرون ملک ایک پارٹی کو فائدہ ہوا لیکن بیرون ملک ان فسادات کا تذکرہ جاری ہے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کا کوئی نوٹس اندرون ملک تو بالکل نہیں لیا گیا لیکن بیرون ملک اس پر تبصرے ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیوں کہ یہ ایک غیر معمولی دستاویزی فلم ہے۔