انتخابات میں مسلمان
پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات اس پہلو سے منفرد تھے کہ ان میں ذات پات اور دھرم کا استعمال خوب جی بھر کے کیا گیا۔ یوں تو یہ کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سرکار آئی ہے، آئینی، قانونی، سماجی حدیں پار ہوتی جا رہی ہیں۔ اقلیتی فرقوں کی جانب سے یہ کام نہیں ہوتا الا یہ کہ کہیں مضبوط مذہبی گروپ ہوں تو اپنے فرقوں کی باتیں اٹھاتے ہیں۔ مسلمان بھی یہ کرتے ہیں۔ لیکن اس بار یا گزشتہ کئی بار سے آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بی جے پی مسلمانوں اور ان کے دین کو بیچ میں لارہی ہے اور وہ بھی بے شرمی کی حد تک۔ پرائم منسٹر نے ایودھیا میں رام مندر کے درشن کیے، کئی مندروں میں بھی بہت کچھ کہا، جے بجرنگ بلی کے نعرے لگائے اور لگوائے، یہ اعمال ان کے ذاتی کہے جاسکتے ہیں حالانکہ آئین ہند کے مغائر ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف انتخابی ریلیوں میں بولنا ان کی تعداد سے غیر مسلموں کو ڈرانا، ایک ریاست میں چار فیصد ریزرویشن کے خلاف بھاشن دینا، قبرستان اور شمشان گھاٹ پر بولنا، نا پسندیدہ لوگوں کو کپڑوں سے پہچاننے کی بات کرنا سراسر خلاف آئین و قانون ہے۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے دوران پی ایم نے لاکھ جتن کر ڈالے کہ کسی طرح دنگے ہو جائیں۔ اس سے پہلے حجاب، حلال، اذان وغیرہ کے سوال پر ماحول تیار کیا گیا تھا لیکن ریاست کے امن پسند عوام قابل مبارکباد ہیں کہ ان شرارتوں کا نوٹس نہیں لیا۔ نہایت امن و امان کے عالم میں انتخابات ہوئے لیکن پرائم منسٹر، امیت شاہ اور ان کے پیرو کاروں نے اپنی شرارتیں نہیں چھوڑیں، وہ اس کے بعد بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر انتخابی بھاشن دیتے رہے جس کے نمونے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ میں حال ہی میں دیکھے گئے۔ پارٹی نے غیر مسلم شہریوں کے دماغوں میں یہ مفروضہ بٹھا دیا ہے کہ اگر ملک میں مسلمان مضبوط ہوگئے تو ایک بار پھر ان پر حاوی ہوجائیں گے۔ پارٹی کے کارندے بھی یہ باتیں کانوں کان پھیلاتے ہیں۔ اب وہ حلال چیزوں سے لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔
مسلم مخالف ماحول
مسلم شہریوں کا ذکر بہت سے مبصرین اور سوشل میڈیا نے کیا مگر بہت شائستگی اور متانت کے ساتھ۔ مسلم رائے دہندگان ملکی رائے دہندگان کا ایک اہم حصہ ہیں۔ آر ایس ایس ان کی تعداد حسب ضرورت گھٹاتی بڑھاتی رہتی ہے۔ انتخابات میں ذمہ دار مبصری ریاست وار تذکرہ کرتے ہیں کہ کس ریاست میں کتنے مسلم ووٹرس ہیں۔ ان کے سیاسی رجحانات بھی بتاتے ہیں۔ تلنگانہ میں مسلم رائے دہندگان کی قابل ذکر تعداد شہر حیدرآباد میں ہے اور آزادی کے پہلے سے ہے۔ حیدرآباد ہی نظام دکن کا دارالحکومت بھی تھا۔ مجلس اتحادالمسلمین کا ہیڈکوارٹرس بھی حیدرآباد میں ہے۔ اس طرح وہ مجلس کے رہنما اسدالدین اویسی کا مضبوط شہر ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مجلس کے تعلق سے بھی حیدرآباد کا ذکر رہا۔ اس بڑی تعداد کے باوجود بی جے پی نے مسلم شہریوں کو گرم مسئلہ اس لیے نہیں بنایا کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے مجلس نے وزیر اعلیٰ کی بھارتیہ راشٹر سمیتی سے مل کر بی جے پی کے ساتھ خاموش اتحاد کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بی جے پی تلنگانہ میں دنگے کرانے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی لیکن ہندی بیلٹ کی تینوں ریاستوں میں پارٹی مسلم مخالف ماحول بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ راجستھان میں دو گیروا بابا ابھرے ہیں۔ ایک سجن بازاروں سے ٹھیلے ہٹوارہے ہیں، دوسرے بندھو چوراہوں پر بھاشن دے کر مخالفوں کو مٹا دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ غرض مسلم مخالف ماحول بنائے بغیر بی جے پی کوئی الیکشن جیت ہی نہیں سکتی۔ اب لوک سبھا کے لیے بھی رام مندر تیار ہے۔ آئندہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں مندر کا ادگھاٹن ہے۔ تیاریاں ابھی سے جاری ہیں۔ رام مندر کا کھیل لال کرشن اڈوانی نے شروع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے عجیب و غریب فیصلہ دیا اور موجودہ وزیر اعظم نے اسے اپنا کارنامہ مشہور کردیا۔