خبر و نظر
پرواز رحمانی
امریکہ اور برطانیہ کیا ہیں ؟
حماس اور اسرائیل کی جنگ کو تین ہفتے ہو رہے ہیں۔ دنیا کی اکثریت یعنی اکثر ممالک یہ جنگ بند کرانا چاہتے ہیں، حماس بھی چاہتی ہے کہ جنگ بند ہو لیکن اسرائیل کی صیہونی فوج اور اس کی آبادی جنگ بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ بھی اسرائیل کے ساتھ ہیں یعنی جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے صیہونی فوج جارحیت پر اتر آرہی ہے۔ اس کی بمباری میں روزانہ سیکڑوں افراد مارے جارہے ہیں جن میں اکثر بچے، عورتیں، بزرگ اور عام شہری شامل ہیں۔ صیہونیوں کا کہنا ہے کہ وہ حماس کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ جنگ سات اکتوبر کو شروع ہوئی ہے جب حماس نے اسرائیل پر راکٹ داغے تھے۔ اس سے پہلے بھی حماس اس قسم کے حملے کرتا رہا ہے۔ اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے بھی بم برسائے ہیں۔ 1948 میں جب سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی ریاست کا ناجائز اور غیر قانونی قیام عمل میں آیا ہے، فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین یہ کشمکش جاری ہے۔ یہ سرزمین اصل میں فلسطینیوں کی ہے جہاں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) قائم ہے جس کا احترام دنیا کے تمام مسلمان کرتے ہیں۔ چالیس کے دہے میں یہودیوں نے مغربی ملکوں اور دوسرے حصوں میں ادھم مچا رکھی تھی۔جرمنی کی تو انہوں نے معیشت تباہ کر رکھی تھی۔ اس لیے جرمن باشندے ان کے مخالف ہوگئے تھے جس کے نتیجہ میں وہاں ان کا قتل عام ہوا تھا۔ کچھ اور ملکوں میں بھی انہوں نے اپنی سودی معیشت کے ذریعے مقامی باشندوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ اس لیے امریکہ، برطانیہ اور کچھ دوسری بڑی طاقتوں نے سازش کی کہ اس خبیث قوم کو کسی ایک جگہ بسا دینا چاہیے تاکہ دنیا اس کے شر سے محفوظ رہے۔ لہذا انہوں نے یہودیوں کو سر زمین فلسطین میں آباد کر دیا جو اللہ کے پیغمبروں کی سر زمین ہے۔ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت یعقوبؑ بھی وہیں پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوبؑ کا لقب اسرائیل تھا اس لیے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ یہی وہ قوم ہے جس نے اپنی حرکتوں سے عربوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے۔
سنگھ کی اسٹریٹیجی
جنگ کی صورت حال اور اسرائیل و امریکہ کا طرز عمل دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس جنگ کو بہت طول دینا چاہتے ہیں۔ حماس کا رویہ صلح جوئی کا ہے لیکن اسرائیل کی تیاریوں سے بھی وہ بے خبر نہیں ہے۔ چین، روس، ایران اور ترکی بھی جانتے ہیں کہ جنگ کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ کچھ ممالک تو کہہ رہے ہیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ کے آثار ہیں۔ تیسری جنگ کے تصور کو وہ جرنلسٹ بھی ہوا دے رہے ہیں جو اسرائیل کا دورہ کرکے آئے ہیں۔ یہ سرکاری جرنلسٹ بہت جوش میں ہیں اور اسرائیل کے حق میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ویسے ہندوستان کی حکم راں پارٹی کے لوگ اور ان کی سرپرست آر ایس ایس بھی بہت خوش ہے۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کو ہزیمت پر بے حد مسرت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلے میں بھی یہ پروپگنڈہ دنیا بھر کیا جا رہا ہے کہ وہ بہت پریشان حال اور ڈی موریلائزڈ ہیں اور حکومت سے خوف زدہ ہیں۔ دراصل آر ایس ایس کی ایک اسٹریٹجی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو یقین دلاے کہ ہندوستان کے بھی ہندو ان کے خلاف ہیں تاکہ وہ خود بھی خوف زدہ رہیں اور دنیا میں بھی یہی پیغام جائے جب کہ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔ مسلمان کسی سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہیں۔ مسلمان اللہ پر اس کے رسولوں پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ بھارت کے سبھی ہندو ان کے خلاف ہیں۔ اس کے تجربات اور مشاہدات ہمیں ہر وقت ہوتے رہتے ہیں۔ جب کبھی ہم کوئی پروگرم قرآن کا یا پیغمبر اسلام کے تعارف کے لیے کرتے ہیں اور انہیں شرکت کی دعوت دیتے ہیں تو وہی ہندو جنہیں اسلام اور مسلمانوں کا دشمن بتایا جاتا ہے، بہت شوق اور مثبت جذبے کے ساتھ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ باتوں کو بہت غور اور توجہ سے سنتے ہیں اور کتابوں کے تحائف بہت خوشی سے قبول کرتے ہیں اور احترام کے ساتھ گھر لے جاتے ہیں۔
کامیابی حق کی ہی ہوگی
جنگ کتنی ہی طویل ہو کامیابی حق کی ہی ہوگی۔ اسرائیل کو عربوں کی سرزمین پر کس طرح آباد کیا گیا، کس طرح وہاں کی قدیم آبادیوں کو اجاڑا گیا۔ اور وہاں انہوں نے عربوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ عیش پرست عرب حکم رانوں کو تو اسرائیل نے اپنے زیر دام کرلیا لیکن غزہ کے خدا پرست و بہادر فلسطینیوں کو وہ زیر نہیں کر سکے۔ امت مسلمہ کے مختلف طبقات ہیں، ان میں سب سے نادان اور نالائق طبقہ حکم راں طبقہ ہے۔ ان کو صرف اپنی اور اپنی اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ خدا کے دین کی اور عوام کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی ہے۔ اس میں سب سے نمایاں ریکارڈ حکم رانوں کا ہی ہے۔ ان طبقات میں سب سے باکردار اور مخلص طبقہ عوام کا ہے جو بظاہر بے بس اور بے سہارا ہیں لیکن اللہ اور رسول کی محبت میں ہر مصیبت کو جھیل جاتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ مزاحمت کا کام بھی یہی لوگ کر رہے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی حمایت انہیں حاصل ہے، ہر چند کہ ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اپنی جان کے، سو وہ بخوشی و رضادے رہے ہیں۔ 1976 کی جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد عرب حکم رانوں کو صرف اپنے علاقوں کی فکر تھی۔ ہر حکومت چاہتی تھی کہ اس کا جو علاقہ اسرائیل نے چھینا ہے وہ اسے واپس مل جائے۔ بیت المقدس اور فلسطینیوں کی زمین کی فکر عام مسلمانوں کو ہی تھی۔ گزشتہ پچھتر سالوں میں جو بھی مزاحمت کی انہوں نے ہی کی ورنہ کچھ مال دار عرب ملک تو اسرائیل کے ساتھ دوستیاں گانٹھنے میں لگ گئے۔ یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او نے فلسطین کی سرزمین اور کسی حد تک بیت المقدس کے لیے جدوجہد کی لیکن انہیں بھی اسلام سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس دوران حماس اٹھی اور اس نے اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنا شروع کیا اور اب تک کر رہی ہے۔ عرب سے باہر کے مسلمان، حماس اور فلسطینیوں کے لیے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اللہ قبول فرمائے۔ اسرائیل کی مزاحمت کرنے والوں کو حوصلہ دے۔ بچوں پر بڑوں پر سب پر رحم فرمائے۔