خبرونظر

 پرواز رحمانی
جب دستور ہند محفوظ تھا
1950میں جب ملکی آئین جاری ہوا تو تمام شہری اس کے پابند تھے اور ہر کام دستور کے مطابق ہوتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا۔ شہریوں کا صرف ایک چھوٹا سا طبقہ تھا جسے یہ آئین پسند نہیں تھا۔ وہ اس کی ضروری باتوں پر بس بے دلی سے عمل کرتا تھا۔ بصورت دیگر تمام عام شہری اس پر عامل تھے۔ جن طبقات کو جزوی طور پر اس سے اختلاف تھا وہ بھی خاموش تھے اور سب کے ساتھ اس پر عمل پیرا تھے۔ عام معمولی شہریوں سے لے کر صدر جمہوریہ تک اس کے پابند تھے۔ ایک بار صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن اندرون ملک سفر میں تھے تو ایک مقام پر انہوں نے اپنی گاڑی رکوائی گاڑی سے اترنے لگے تو سیکیوریٹی افسر نے انہیں روک لیا۔ کہا کہ آپ سرکاری ڈیوٹی پر ہیں اور منزل مقصود کی طرف جائیں۔ اسی طرح ایک بار صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایک مسجد یا درگاہ کے پس گاڑی رکوائی اور اترنے لگے تو متعلقہ افسر نے انہیں روک دیا اور یہی کہا کہ آپ اپنے مقصد کی طرف براہ راست جائیں ، آپ کو کہیں اور نہیں رکنا چاہیے۔ کوئی مذہبی فرض یا دھارمک رسم ادا کرنا سخت منع تھا۔ کسی ایک مذہب کے طریقہ پر عمل کرنا اور دوسرے مذاہب کو نظر انداز کرنا سخت ممنوع تھا۔ یہ ملک سیکیولر اسی معنی میں ہے یا تھا کہ یہاں کسی ایک مذہب کی پیروی نہیں ہوگی۔ کسی کام میں نمائندگی ہوگی تو تمام مذاہب کی ہوگی۔ ورنہ کسی کی نہیں ہوگی۔ اس طریقہ پر کم  وبیش 65سال عمل ہوتا رہا لیکن اب گزشتہ دس سال سے ساری روایات بدل گئی ہیں۔ صرف ایک دھرم کی بات کی جاتی ہے اور اسی دھرم کی روایات پر عمل ہوتا ہے۔ علانیہ کہا جاتا ہے کہ یہ دیش ہندو ہے۔ راشٹر میں صرف ہندو راشٹر کی بات ہوتی ہے۔ سناتن دھرم کے تمام نعرے استعمال کئے جاتے ہیں رسوم  و رواج وہی ہیں۔ ایسی کچھ سماجی طبقات اور اپوزیشن پارٹیاں بارہا اندیشے ظاہر کررہی ہیں کہ ملکی آئین خطرے میں ہے۔ اسے بچایا جانا چاہیے۔
صورت حال بدل رہی ہے
مگر اب تو جتنے او جیسے بھی ہیں دھارمک نعرے استعمال ہورہے ہیں۔ جس میں آغاز میں آئین ہند کی مخالفت کی تھی وہی ان نعروں میں آگے ہے۔ وہ آج بھی دستور کے خلاف ہے اور پورا آئین بدل دینا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ دستور مخالف سرگرمیوں میں بھی مصروف ہے۔ شہریوں میں پھوٹ اور بھید بھاو شہریوں کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف ورغلانا ان سے بات بات میں دوری قائم کرنا، اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقے کو گالیاں دیتا ہے تو دیتا رہے۔ ان لوگوں کی حکومت نے تمام بڑی سرکاری ایجنسیوں پر تسلط قائم کر رکھا ہے۔ عدالتوں پر بس نہیں چل رہا ہے لیکن کوشش ہے کہ عدالتی نظام پر بھی کنٹرول حاصل ہوجائے۔ ’’انڈیا‘‘ الائنس کی کوشش یہی ہے کہ حکمراں گروہ کو اب اور موقع نہیں ملنا چاہیے۔ راہل گاندھی، ملکا ارجن کھرگے، نتیش کمار، لالو پرساد یادو، اکھلیش یادو وغیرہ اسی میں مصروف ہیں۔ 2024میں کانگریس والے راہل گاندھی کی وزارت عظمی کی بات کررہے لیکن راہل کے اپنے سیاسی طرز عمل سے نہیں محسوس ہوتا کہ وہ یہ منصب قبول کریں گے۔ وہ ملک میں پھیلی ہوئی چوطرفہ سیاسی برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ آر ایس ایس کے نظریات اور اس کی پالیسی و پروگرام کے خلاف ہیں۔ یہ بات وہ کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں۔ ملک میں جو فتنہ و فساد پیدا ہوا ہے، وہ اس کے لیے سنگھ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اس کا سدھار چاہتے ہیں۔ یعنی راہل گاندھی اپنے کام میں گاندھی جی اور جے پرکاش نارائن سے تحریک پاتے ہیں۔ راہل کے چچا زاد بھائی ورون فیروز گاندھی کے کانگریس شامل ہونے کی بات پر وہ کہتے ہیں ورون پہلے بی جے پی چھوڑیں یعنی آر ایس ایس سے قطع تعلق کریں، پھر وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ ویسے ان سے خاندانی رشتے قائم ہیں۔
’’انڈیا‘‘ کی حکمت عملی
جہاں تک ہندو ازم کو فروغ دینے کا تعلق ہے، اس میں اپوزیشن پارٹیاں بھی شریک ہیں۔ وہ بھی جابجا مندروں میں جاتے ہیں۔ ہنومان کے پتلے بناتے ہیں اور دوسری مروجہ روایات پر عمل کرتے ہیں۔ راہل گاندھی بھی یہی کرتے ہیں لیکن ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ راہل، مودی اور بی جے پی کی سازش کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ کام نہ کریں تو پھر مودی کے لیے میدان صاف رہے گا، وہ ہر کام میں ہندوازم کا استعمال کریں گے جیسا کہ کررہے ہیں۔ راہل گاندھی کہتے ہیں کہ مودی کے ہندوتوا اور ہمارے ہندوازم یا سناتن دھرم میں فرق ہے۔ ہم سناتن دھرم پر عمل کرتے ہیں جو تمام انسانوں کو ایک سمجھتا ہے۔ واقعہ جو بھی ہو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آر ایس ایس یا بی جے پی نے سارا بکھیڑا ہندوتوا کے نام پر کھڑا کیا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے لیکن کانگریس نے کرناٹک میں اس کا داو اسی پر الٹ دیا ہے۔ خود ہندو مندروں اور ہنومان کے پتلوں کا استعمال کرکے عام رائے دہندگان کو حقیقت سمجھا دی ہے۔ اگر اس طریقہ میں مزید کامیابی ملی تو پھر سناتن دھرم کام کرے گا۔ ہندو دھرم کوئی دھرم نہیں ہے۔ اس کا نام چند صدیوں سےمروج ہے اصل دھرم سناتن ہی ہے جو لڑائی جھگڑوں اور نفرت و کینہ کپٹ میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے کہ لوگ اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور تبلیغ کریں گے تو آئین کے مطابق امن و محبت سے کریں گے جیسا کہ کرتے آرہے ہیں۔ راجستھان میں ایک لڑکی ہے ندھی شرما، اس نے اپنا دوسرا نام فاطمہ رکھا ہوا ہے، وہ سناتن کے ساتھ اسلام کو بھی بہت پسند کرتی ہے اور اس کے ویڈیو جاری کرتی ہے۔ بڑی اچھی باتیں کرتی ہے۔ اورکئی لڑکیاں ہیں جو اسلام اور اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھتی ہیں اور ان پر ویڈیوز جاری کرتی ہیں۔