خبرونظر
فلسطین
فلسطین اور وہاں کے عوام پر صیہونی اسرائیل کا ظلم و جبر دنیا میں کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی دنیا جانتی ہے کہ 75 سال قبل امریکہ، برطانیہ اور کچھ دوسرے بڑے ملکوں کی سازش کے تحت فلسطین پر اسرائیل کو مسلط کیا گیا ہے۔ دیانت دار مبصرین اس حقیقت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے ممالک اور ان کے لیڈر ہیں جو ظلم و تشدد پر خاموش رہتے ہیں۔ اب جب کہ اس ظلم و جارحیت سے تنگ آکر فلسطین کی ایک نمایاں تنظیم حماس نے اپنی سی کارروائی کی اور اس کے نتیجے میں ڈھائی تین سو صیہونی مارے گئے تو ان ملکوں کو بڑی تکلیف ہوئی اور کئی ایک نے اس پر دکھ کا اظہار کیا اور اسرائیل کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی ظاہر کی۔ ان میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ حماس کے حملوں کی خبریں آنے کے دو ڈھائی گھنٹوں بعد وزیر اعظم نے اسرائیل سے رابطہ کرکے اس کے ساتھ ہمدردی جتائی۔ یہ بھی کہا کہ بھارت، اسرائیل کے ساتھ ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو لوگ مختلف پہلووں سے دیکھ رہے ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ یہ بیان ملکی مسلمانوں کو ذہنی ایذا پہنچانے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ بہت سے اسے اسرائیل کے ساتھ قربت کے اظہار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ عالمی برادری میں بڑا بننے کے طور پر کیا گیا ہے۔ واقعہ جو بھی ہو، مودی نے اپنے ملک کی دیرینہ پالیسی کے خلاف کہا ہے۔ 1948میں اسرائیلی مملکت کے قیام کے بعد سے حکومت ہند کی پالیسی فلسطین میں امن و امان کے قیام کی رہی۔ سات آٹھ ماہ پہلے ہی وزیر اعظم نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا تھا۔ مگر اب اچانک وہ صیہونیوں کے جبر و تشدد کو فراموش کرکے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔
میڈیا اسرائیل میں
ایک خبر یہ بھی ہے کہ ہندوستانی چینلوں کے کچھ اینکرس بھی اسرائیل پہنچ گئے ہیں اور وہاں سے نتن یاہو اور مودی کو خوش کرنے والی خبریں بھیج رہے ہیں۔ ’’وشو گرو‘‘ نے بیان دیتے وقت اتنا بھی نہیں کیا جتنا روس اور یوکرین کی جنگ کے موقع پر کیا تھا۔ مشہور کیا گیا کہ مودی کے بیان کے بعد دونوں کی لڑائی بند ہوگئی تھی، گویا مودی کے ‘اثرات’ دنیا میں اتنے ہیں کہ کہ وہ بڑے ملکوں کی جنگ رکواسکتے ہیں۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ حماس کے حملوں کی خبر سن کر مودی اسرائیل کے ساتھ تو کھڑے ہوگئے لیکن اور کچھ نہیں کہا، اتنا کہہ دیتے کے طرفین ضبط سے کام لیں، حملے بند کردیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پی ایم کو صرف اسرائیلی دوستی عزیز ہے۔ فلسطین کے سلسلہ میں وہ اپنے ملک کی دیرینہ پالیسی بھول گئے ہیں جب کہ دو مسلم ملکوں سعودی عرب اور ترکیہ نے یہی کہا ہے کہ فریقین ضبط سے کام لیں۔ لڑائی بند کردیں۔ بات چیت کی میز پر آئیں۔ اس موقع پر مبصرین منی پور کا حوالہ بار بار دے رہے ہیں کہ مودی نے حماس کی کارروائی کا نوٹس تو فی الفور لے لیا لیکن منی پور انہیں یاد نہیں آیا جہاں پانچ مہینوں سے آگ لگی ہوئی ہے۔ گودی میڈیا کے اینکر اسرائیل تو پہنچ گئے لیکن انہیں منی پور پر ترس نہیں آیا، اس لیے کہ خود پی ایم کو ترس نہیں آیا۔ منی پور کے سانحے پر جب پی ایم اس قدر سخت دل، بے رحم اور لاپروا ہیں تو ان کے چمچے اینکر کیوں منی پور جائیں گے؟ اطمینان کی بات یہ ہے کہ دیگر سیاسی و اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے برعکس موقف اپنایا ہے۔ کسی نے اسرائیل کی تائید نہیں کی۔ کچھ پارٹیوں نے ایک اسرائیلی ایم پی کا یہ بیان دہرایا ہے کہ حماس نے یہ حملے فلسطینیوں پر اسرائیلی حکومت کے جبر و تشدد کے خلاف کیے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹیوں نے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ کمیونسٹ افراد کا ایک اجلاس لکھنو میں ہوا تھا۔
محکمہ خارجہ کا بیان
13؍ اکتوبر کی صبح اچانک خبر آئی کہ محکمہ خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے ملک کی دیرینہ پالیسی کا اعادہ کیا ہے۔ بیان میں وزارت خارجہ کے ایک افسر نے کہا ہے کہ ہندوستان پہلے کی طرح فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ ہم ایک آزاد فلسطین کے حق میں ہیں اور وہاں امن و امان چاہتے ہیں۔ افسر نے حماس اور اسرائیل دونوں سے اپیل کی کہ وہ جنگ بند کردیں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ محکمہ خارجہ یا وزارت خارجہ کا یہ بیان وزیر اعظم مودی کے رویہ کے خلاف اور ان کے موقف کے برعکس ہے۔ خیال ہے کہ محکمہ خارجہ نے یہ یبان پی ایم کی مرضی کے خلاف جاری کیا ہے۔ مودی کے بیان میں اسرائیل کی کھلی حمایت تھی۔ فلسطین کا کوئی ذکر نہ تھا۔ وہ شاید فلسطین پر خاموش ہی رہنا چاہتے تھے (جس طرح منی پور پر خاموش ہیں) پی ایم کے بیان پر جابجا تنقید ہورہی تھی۔ پوزیشن لیڈر اور سیاسی مبصرین مودی کی علانیہ تنقید کررہے تھے، بیرون ملک سے بیان کی تنقیدیں آرہی تھیں۔ اس لیے خیال ہے کہ محکمہ خارجہ نے اسی صورتحال کے پیش نظر یہ بیان جاری کیا ہو۔ کانگریس فلسطین کے حق میں ایک قرارداد منظور کرچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی دیرینہ دوستی کی وجہ سے پی ایم سے رابطہ قائم کیا ہو۔ چند سال قبل سعودی حکومت نے پی ایم کو ریاض بلاکر نیشنل ایوارڈ دیا تھا۔ ویسے اسرائیل کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اسرائیل کی مدد سے سعودی عرب میں دنیا کا جدید ترین ترقی یافتہ شہر قائم ہورہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے مراسم اسرائیل اور ہندوستان دونوں سے خوشگوار ہیں، بہت اچھا ہے۔ تعلقات خوشگوار ہی ہونے چاہئیں۔ سعودی عرب کا سماجی نقشہ جو بدل رہا ہے۔