خبر و نظر
پرواز رحمانی
باخبر لوگ جانتے ہیں
باخبر لوگوں کو یاد ہوگا کہ نریندرمودی صدی کے اوائل میں جب گجرات کے وزیراعلیٰ بنے تو ابتدا ہی میں سنگھ کی لیباریٹری میں تجربات شروع کر دیے تھے۔ عام شہریوں کے لیے ٹائر ٹیوب پنکچر والے اور میاں (میاں مشرف) ٹرم رائج کردی تھی۔ دلت طبقات اور محروم برادریوں کے لیے کچھ اور پہچان مقرر کی تھی۔ پھر جب وزیر اعظم بنے تو نئی نئی اصطلاحیں استعمال کرنے لگے۔ کپڑوں سے پہچان، قبرستان بمقابلہ شمشان چوراہوں پر اور بازاروں میں سر عام لنچنگ کی حوصلہ افزائی، گالم گلوج کا فروغ اور بھی کئی بیانیے ایجاد کیے۔ آزاد مبصرین کہتے ہیں کہ گزشتہ دس برسوں میں ان باتوں کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ بہت سے لوگ اس کام میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔ لوک سبھا میں حال ہی میں ایک ممبر کی بد زبانی کا جو واقعہ پیش آیا اس نے اس خیال کو مزید پختہ کردیا ہے کہ برسر اقتدار رہنے کے لیے بی جے پی کے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس اپنا طریقہ بدلنا چاہتی ہے۔ ہندوتوا لیباریٹری کے طریقوں میں مودی بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ اب اسے بدلا جانا چاہیے۔ چنانچہ سنگھ کی طرف سے اب اشارے مل رہے ہیں کہ اگر آئندہ سال لوک سبھا کے انتخابات پارٹی جیت گئی تو مودی کو بدل دیا جائے گا۔ یو پی میں مایاوتی کو مودی کا سہارا تھا، مگر اب وہ مودی پر شدید تنقید کرتی ہیں۔ انہیں سنگھ نے اپنی طرف جھکالیا ہے۔ اب وہ سنگھ کی مدد سے چیف منسٹر بننے کا جال بن رہی ہیں۔ مرکز میں مودی کے نمبر دو سمجھے جانے والے امیت شاہ یوگی کے مخالف ہیں یہاں تک مایاوتی کا کام آسان ہے لیکن سنگھ نے اگر یو پی کے سر پر ہاتھ رکھ دیا تو مودی اور شاہ دونوں یو پی سے دور ہو جائیں گے۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب مودی کی قیادت میں بی جے پی واقعتاً جیت رہی ہو جیسا کہ اس کے آدمی پروپیگنڈہ کررہے ہیں، بصورت دیگر ملک میں اس کی حالت بہت خراب ہے۔
نفرت کی سیاست جاری ہے
نفرت اور تخریب کاری کی سیاست سے مودی ابھی دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں سے کسی واقعہ کی انہوں نے مذمت نہیں کی۔ اس سے پہلے بھی نہیں کی۔ لوک سبھا میں ایک ممبر کی بد زبانی پر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اس بد زبان کی حمایت میں کچھ لوگ اس لیے کھڑے ہوگئے کہ وہ خود اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ہیمنت بسوا سرما ہو یا پہلوان لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے والا، انہیں یہ حوصلہ ملا ہے مودی سے۔ اب حالیہ مہینوں کے تجربات سے مودی کو بھی یقین ہوگیا کہ لوک سبھا کے الیکشن جیتنے کے لیے ان کا سب سے بڑا سہارا ہندوتوا ہی ہے۔ اگر سنگھ نے انہیں الگ بھی کردیا تو وہ آزاد پارٹی بناکر کام کریں گے اور اس طرح اقتدار پر قابض رہیں گے۔ کوئی شبہ نہیں کہ مودی کے کچھ ’’کارناموں‘‘ کی وجہ سے ان پر جاں نثار کرنے ولا ایک مضبوط طبقہ ملک میں موجود ہے۔ گوکہ بہت چھوٹا اور محدود ہے لیکن ان کی ہر بات کی تائید کرتا ہے۔ وہ کتنا ہی سفید جھوٹ بولیں، یہ طبقہ اس پریقین کرتا ہے۔ غریب ہوتے ہوئے بھی بے روزگاری غربت اور مہنگائی اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس طبقہ کے لیے مودی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے گجرات اور پورے ملک میں مسلم شہریوں کو بے بس بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس طبقہ کے لیے یہی سب سے بڑی بات ہے۔ اب رہی الیکشن میں ہار اور جیت کی بات تو مودی اور ان کے دوستوں کے لیے الیکشن جیتنے کے بہت سارے طریقہ ہیں۔ سب سے بڑا ذریعہ ای وی ایم ہے یعنی ووٹ حاصل کرنے کی مشین۔ اسی لیے ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ مشین کا بٹن کسی بھی نشان پر دباو گے لگے گا کمل پر ہی۔ الیکشن پر خرچ کرنے کے لیے پیسہ بے تحاشا ہے۔ فسادات برپا کرنے کے لیے کئی مسلح گروپس موجود ہیں۔ ووٹوں کی مشینیں لوٹنے کے لیے کئی ٹیمیں تیار ہیں۔ اس لیے انہیں جیتنے کی فکر نہیں ہے۔ 2024 میں آنا مودی ہی کو ہے۔ مخالف پارٹیاں کتنا ہی زور لگالیں۔ جیتیں گے مودی ہی۔
راہل کا منصوبہ کچھ اور ہے
یقیناً یہ مودی کے کٹر حامیوں کا پختہ خیال ہے لیکن حالیہ مہینوں کے واقعات بتاتے ہیں کہ اب یہ خیال فرسودہ ہوچکا ہے۔ حالات اب یو ٹرن لے چکے ہیں۔ اس چھوٹے سے گروہ کے سوا مودی کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ مودی نے ان حرکتوں سے اپنی حیثیت اس قدر گھٹالی ہے کہ خود ان کے قریبی ان سے بے زار ہو رہے ہیں۔ مبصرین کی ایک بحث میں کچھ شرکا مودی کا موازانہ راہل گاندھی سے کررہے تھے۔ ایک سینئر مبصر غصے سے بھڑک گئے، کہا ’’راہول سے مودی کا کیا مقابلہ؟ مودی تو پھٹ کپٹ، جھوٹ دنگے فساد اور پیسے کے زور پر برسر اقتدار رہنا چاہتا ہے جبکہ راہل گاندھی اس پورے ملک کے لیے ایک مثبت اور مستقلاً ایک ایک مضبوط ہندوستان کا نقشہ تیار کررہا ہے۔ راہل کا موازنہ اگر کیا جا سکتا ہے تو گاندھی جی اور جے پرکاش نارائن سے۔ وہ انہی دو شخصیتوں سے فیض حاصل کرتا ہے۔ اس کی آج کل کی سرگرمیاں یہی بتاتی ہیں۔ وہ خود وزیر اعظم بننا نہیں چاہتا ہے، اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو یہ ذمہ داری دنیا چاہتا ہے ۔راہل سے مودی کا موازنہ کرنا راہل کی توہین ہے۔ اس کا خاندانی پس منظر بھی یہی بتاتا ہے۔ اس کی پارٹی جیتے یا ہارے۔ وہ اپنا یہ کام جاری رکھے گا۔ بات بالکل درست ہے جو لوگ نفرت اور قتل و غارت گری کی سیاست چلا رہے ہیں وہ جلد ہی ڈوب مریں گے۔ ملک کو بھی برباد کرکے رکھ دیں گے۔ پائیدار سیاست وہی چلے گی جو راہل گاندھی چلا رہے ہیں۔ انڈیا الائنس میں جو لوگ صرف اقتدار کے لیے شامل ہوئے ہیں، انہیں بھی اپنا راستہ بدلنا ہوگا۔ ایک خبر یہ ہے کہ مایاوتی انڈیا میں آرہی ہیں، دوسری خبر یہ ہے کہ بہار کے نتیش کمار وزیر اعظم بنائے جارہے ہیں لیکن یہ دونوں خواب و خیال کی باتیں ہیں۔