خبرونظر
پرواز رحمانی
بڑے چینلوں کے یہ اینکر
اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کرے گا۔ نہ انہیں اپنے پروگراموں اور پریس کانفرنسوں میں بلائے گا نہ ان کے پروگرموں اور کانفرنسوں میں شرکت کرے گا۔ ان کے کسی اینکر سے بات کرے گا نہ انہیں انٹرویو دے گا۔ صرف سوشل میڈیا کے پرائیویٹ چینلوں سے رابطہ رکھے گا۔ انہی اینکروں سے بات کرے گا۔ یہ اس لیے کہ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں، یہ میڈیا سرکار کا زر خرید غلام ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے تمام اینکرز پرائم منسٹر کے ذاتی خادموں کی طرح کام کرتے ہیں اور پرائم منسٹر بھی ان سے خوب کام لیتے ہیں۔ ہندو مسلم جھگڑے کرانے میں بھی ان اینکروں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں، مذہبی اقلیتوں، دلتوں، محروموں اور نچلے طبقوں کے خلاف من گھڑت باتیں پھیلانا ان اینکروں کا خاص مشغلہ ہے، کیوں کہ یہی مشغلہ وزیراعظم اور ان کے چاپلوسوں کا بھی ہے۔ اپوزیشن لیڈروں بالخصوص راہل گاندھی کے خلاف منفی تشہیر کے لیے ان چینلوں کے توسل سے کروڑہا روپے خرچ کیے گئے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے جب سے اپنے اتحاد کا نام ’’انڈیا‘‘ رکھا ہے، وزیر اعظم کی بوکھلاہٹ تمام حدیں پار کرچکی ہے۔ چاپلوسوں اور اینکروں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ راہل کے ساتھ وہ ان کے حامیوں کو بھی گالیاں دے رہے ہیں۔ جب ان اینکروں کی بد تمیزی کی حد ہوگئی تو اپوزیشن اتحاد نے یہ قدم اٹھایا۔ ہر چند کہ یہ اینکرز اپنی عادات بد سے اب بھی باز نہیں آئیں گے، اپوزیشن کے خلاف بولتے رہیں، یعنی انہیں جو کرنا ہے، کرتے رہیں گے تاہم اپوزیشن کو یہ اطمینان ہے کہ وہ ان کی غلط کاریوں میں کسی بھی درجے میں شریک نہیں ہوگی۔ اینکروں کے ساتھ بات کرنا یا ان پروگراموں میں شریک ہونا جہاں وہ بھی ہوں بالواسطہ ان سے تعاون کرنا ہے۔
ان کا کام کیا ہے
ان اینکروں کے نام بھی آئے ہیں جن کا مقاطعہ کیا گیا ہے۔ فی الحال اس میں 14 افراد ہیں، لیکن یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے اور یقیناً بڑھے گی اس لیے کہ ایسے جھوٹے، مکار، چاپلوس اور چالو جرنلسٹ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ چودہ تو وہ ہیں جنہیں سبھی جانتے ہیں وہ بہت مشہور اور بدنام ہیں۔ ان میں سے منی پور کے سانحہ پر کوئی کچھ نہ بولا، اس لیے کہ پرائم منسٹر نہیں بولے۔ پہلوان بیٹیوں کو انہوں نے بدنام کرنے کا کام کیا۔ اڈانی کا نام کوئی نہیں لیتا اس لیے کہ وزرا نہیں لیتے۔ انہیں بس راہل گاندھی، اپوزیشن لیڈروں اور ان کے حامیوں کو نیچا دکھانے سے دلچسپی ہے۔ مسلمانوں، دلتوں، آدی باسیوں اور نچلی ذاتوں پر بھی یہ اینکر اسی لیے برستے ہیں۔ یہ بالعموم اپوزیشن کے حمایتی ہیں۔ اولین ناموں میں ایک نام سدھیر چودھری کا آتا ہے۔ کرناٹک سرکار نے اپنی ایک اسکیم کے تحت مسلم ڈرائیورں کو آٹو رکشا پچاس ہزار کی رعایت پر دینے کا فیصلہ کیا جب کہ شیڈیولڈ کاسٹ اور شیڈیولڈ ٹرائب کو یہ رعایت 75 ہزار تک کی ہے۔ سدھیر چھودھری لگاتار ایک ماہ تک پوچھتا رہا کہ اس اسکیم میں ہندو کیوں شامل نہیں ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر چودھری سے سوال کیا جارہا ہے کہ وہ کیا ایس سی اور ایس ٹی کو ہندو نہیں سمجھتا جبکہ الیکشن اور لڑائی جھگڑوں میں انہیں بڑھ چڑھ کر ہندو کہا جاتا ہے؟ چودہ کے نام کورٹ سے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ایک بار وہ حاضر ہوچکا ہے۔ مانگ کی تھی کہ اس کا نام خارج کر دیا جائے لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے انکار کر دیا یہ کہہ کر یہ معاملہ اتنا چھوٹا نہیں ہے۔ اب ۱۹ ستمبر کو اسے دوبارہ طلب کیا ہے۔ یہ اینکر پہلے زی نیوز میں تھا، وہاں بھی اس پر ایک مقدمہ قائم ہوا تھا۔ آج کل ’’آج تک‘‘ میں ہے۔ اس قبیل کے کئی اینکرز ہیں مگر حکومت کے چاپلوس ہونے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔
کوئی فرق نہیں پڑے گا
اور وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ صبح اٹھ کر جب تک وہ راہل گاندھی اور ان کے خاندان کو دس بیس گالیاں نہ دے لیں، کام شروع نہیں کرتے۔ ’’انڈیا‘‘ نام کے اتحاد سے صدمے کی حالت میں ہیں۔ انڈیا کا نام بدلنے کے لیے یا اسے توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے روزانہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ تین دن قبل مدھیہ پردیش میں کسی کارخانے کا افتتاح کرنے کے لیے پہنچے تو بہت لمبا بھاشن دیا، اس میں انڈیا اتحاد کے لیے ایک نام بھی ایجاد کرلیا۔ یعنی انڈیا کا ’اے‘ الگ کرکے اسے ’انڈی‘ بنادیا۔ اب ان کے چاپلوسوں نے اس نئے نام کو بڑے پیمانے پر پھیلانا شروع کردیا۔ راہل گاندھی کے خاندان پر مودی کے تین بڑے الزامات ہیں۔ بھرشٹاچار، پریوار واد، تشٹی کرن۔ تشٹی کرن سے مراد ان کی یہ ہوتی ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں بہت کچھ دیتی ہے لیکن اس کا حساب کبھی نہیں بتایا کہ راہل گاندھی نے مسلمانوں کو کیا دے دیا اور بی جے پی ہندووں کو کیا دیتی ہے۔ دلتوں کو ریزرویشن دیا جاتا ہے وہ ہریجنوں کو ہریجن رکھنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ جو دلت مسلمان یا کرسچین ہوجاتا ہے اس کا ریزرویشن منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دلتوں کو اس وقت تک ملے گا جب تک وہ ہندو رہیں گے۔ اگر دھرم تبدیل کرلیا تو ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔ غربت اور بدحالی سے اس ریزرویشن کو کوئی واسطہ نہیں۔ سرکاری میڈیا جسے بہت سے لوگ گودی میڈیا کہتے ہیں، سرکار کی طرف سے انہیں بھر پور امداد ملتی ہے۔ انڈیا گٹ بندھن نے کچھ جرنلسٹوں کے بائیکاٹ کا جو فیصلہ کیا ہے ، اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سرکار انہیں پال رہی ہے۔ نظریہ اور پالیسی پروگرم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلے گا۔